تیسرے تیونس کے لئے احکام شخصیہ (PERSONAL LAW) کا ایک نیا قانون بعنوان "مجلۃ الاحکام الشخصیۃ"" (TUNISIAN CODE OF PERSONAL STATUS) منظور کر کے نافذ کر دیا گیا۔ اگرچہ تیونس کی وزارت انصاف نے ایک گشتی مراسلے میں اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ اس قانون کو اسلامی قانون کے اعلیٰ درجہ کے ماہرین نے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے، اور اگرچہ اس قانون نے بعض ایسے اداروں کو برقرار رکھا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے خالص اسلامی ہیں، مثلاً مہر، رضاعت کی بنا پر حرمت نکاح اور باوجودیکہ یہ قانون فروعی مسائل میں تیونس میں مستند سمجھے جانے والے دونوں فقہی مذاہب میں سے کسی ایک سے ضرور متفق ہے، تاہم کسی دور ازکار تاویل کے ذریعہ اسے روایتی اسلامی قانون کا چربہ قرار دینا اور یہ کہنا کہ یہ روایتی اسلامی قانون ہی کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے، ممکن نہیں، تونس کے بہت سے اعلٰی درجہ کے علماء نے جن کا تعلق عدالتوں سے تھا، اس قانون کے خلاف ایک فتویٰ صادر کیا، جس میں اس کوڈ کی کھل کر مخالفت کی گئی، ان علماء میں سے چار (۴) نے جن میں مالکی، حنفی دونوں مذاہب کے مفتی اعظم بھی شامل تھے، بطور احتجاج کے عدالت عالیہ (TRIBUNAL SUPERIOR) سے جس کے وہ ممبر تھے استعفاء دے دیا، یہ صحیح ہے کہ کوڈ کا جو حصہ قانون وراثت سے متعلق ہے، اس نے اسلامی قانون وراثت کو بغیر کسی تبدیلی کے بعینہ قبول کرلیا، جس کی وجہ یقیناً یہ تھی یہ یہ سمجھا گیا کہ تونس کے سماجی حالات کے تقاضوں کو یہ قانون وراثت اب بھی بحسن و خوبی پورا کر سکتا ہے، لیکن نکاح و طلاق کے قوانین کو ایسا بدلا گیا کہ ان کی شکل بھی اب نہیں پہچانی جاتی، مثال کے طور پر تعداد ازواج کو ممنوع قرار دے کر اسے ایک قابل تعزیر فوجداری جرم