صاف لفظوں میں اسلام کو ترک کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ برابر ضروری مغربی تمدن اور دینی روایات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اکثر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگرچہ ان کی اصلاحات لفظی طور پر قرآن مجید کی نصوص کی پابند نہیں ہیں لیکن وہ ان کی روح کی منافی بھی نہیں ہیں، اس لئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ تیونس کا جدید رخ کمالی فکر کے مقابلہ میں مصری فکر سے قریب تر ہے جس طرح مصر نے جامع ازہر کو باقی رکھا، اسی طرح بورقیہ نے تیونس کے مدرسہ اعظم جامع زیتونہ کی مخالفت میں احتیاط برتی، لیکن وہ دو سال سے اس کے دائرہ اثر اور اس کے کاموں کو محدود کرتے چلے جا رہے ہیں، اور وہ اس پر غور کر رہے ہیں کہ وہ اس کو محض ایک ایسے کالج کی شکل میں باقی رکھیں جو تیونس یونیورسٹی کے ماتحت الہٰیات کی تعلیم کے ساتھ مخصوص رہے۔" (۱)
پروفیسر جوزف شاخت (SCHACHT) نے بھی اپنے ایک جدید مقالہ "جدید اسلامی قانون سازی کے مسائل" میں تونس کی اس "ترقی پسندی" اور تجدد کے میدان میں پیش قدمی کا بہت صاف طریقہ سے اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"آخرکار تونس نے ۱۹۵۶ء کے قانون کو منظور کرکے اپنے آپ کو ان ملکوں کا میر کارواں ثابت کر دیا جو اسلامی قانونی جدت پسندی کی منزل کی طرف سرگرم سفر ہیں، سب سے پہلے اوقاف عامہ ختم کئے گئے اور ان کی آمدنیوں کو حکومت کی ملک قرار دے دیا گیا، یہ فعل قانونی اہمیت کے اعتبار سے شام اور مصر کے اوقاف کے خاتمے سے کہیں بڑھ کر تھا، دوسرے ایک سال قبل کے مصری قانون کی پیروی کرتے ہوئے محاکم شرعیہ کے ان اختیارات کو جن کے تحت وہ روایتی اسلامی قانون کا انطباق کیا کرتے تھے، سلب کر لیا گیا، اور
------------------------------
۱۔ ملاحظہ ہو کتاب "المغرب المسلم ضد اللادینیۃ" تصنیف ادریس الکتانی ص ۹۵ - ۹۶۔