’’ صدر بورقیبہ نے تعدد ازواج کی آزادی کو محدود مقید کر دیا ہے۱؎، اسی طرح سے شوہر کے لئے اپنی بیوی کو خود طلاق دینے کی آزادی پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں ہیں۲؎، اسی طرح شوہر کے اختیارات کو بہت کچھ محدود و مقید کر دیا گیا ہے، یہ خاندانی آزادی سیاسی اور معاشرتی آزادی کے ساتھ مل کر دوچند ہو جاتی ہے، اب عورتوں کو حق رائے دہندگی بھی حاصل ہے، اور مجالس قانون ساز کا ممبر بننے کی بھی، تمام ملازمتوں کے دروازے ان پر کھلے ہیں، اس وقت سو خواتین محکمہ تعلیم میں ہیں، ڈیڑھ ہزار دفاتر میں اور سات ہزار مختلف صوبوں میں۔
تیونس، ترقی کے اس میدان میں قیادت و رہنمائی کا پارٹ ادا کر رہا ہے، کمال اتاترک کے زیر قیادت ترکی نے اس راستہ کا آغاز کیا تھا، اس پر تیونس اب قدم بڑھا رہا ہے، اس ملک میں واضح طریقہ پر اور تیزی کے ساتھ تبدیلی آرہی ہے، پردہ ( خصوصیت کے ساتھ نئی نسل میں ) کم ہوتا جا رہا ہے، باہر نکلنے والی عورتوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے، سیاسی محفلوں میں وہ مردوں کے دوش بدوش نظر آتی ہیں، دیہاتوں میں البتہ ( جہاں ابھی تک مخالفت سخت ہے ) ترقی کے قدم سست ہیں۔
صدر بورقیبہ نے اس تبدیلی کو زبردستی مسلط کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ وہ یہ پسند کرتے ہیں کہ یہ پرانے کپڑے خود کٹ کر اور گل کر جسم سے اتر جائیں، وہ اس بات کی شدت سے تردید کرتے ہیں کہ وہ لادینیت پر عقیدہ رکھتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ
------------------------------
۱؎ یہ ۱۹۵۸ ء کی بات ہے اس کے بعد تعدد ازواج قانونًا ممنوع قرار دے دیا گیا۔
۲؎ یہ بھی اسی وقت کی بات ہے، اس کے بعد یہ حق شوہر سے لے کر عدالت کو دے دیا گیا ہے، اب شوہر ذاتی طور پر طلاق دینے کا مجاز نہیں ہے۔