قوت ایمانی نے گذشتہ عہدمیں بھی محیرالعقول کارنامے انجام دئیے، جن پر عقلِ انسانی صدیوں سے انگشت بدنداں ہے، اور اس کے اندر آج بھی وہی خارق عادت طاقت اور اعجازپوشیدہ ہے، اسی قوت ایمانی، جذبۂ قربانی اور شوق شہادت کی مدد سے سویز کا معرکہ سر کیا گیا، الجزائر کی خون آشام اور طویل جنگ لڑی گئی، اور دس لاکھ انسانوں کی قربانی سے (جو جہاد کے جذبہ سے سرشار تھے) ملک کی آزادی اور عزت خریدی گئی۔
یہ تاریخ کا عجیب المیہ اور سیاست کی عجیب ’’ستم ظریفی‘‘ ہے کہ کسی ملک میں جب تک آزادی کا معرکہ درپیش رہتا ہے، اور غیرملکی اقتدار سےنجات حاصل کرنے کے لئے ان عوام کی قربانیوں، سرفروشی اور جوش خروش کی ضرورت ہوتی ہےجو خدا کی رضا، اخروی اجرو ثواب اور اسلام کی سربلندی کے سوا کسی مقصد سے دلچسپی نہیں رکھتے، مذہب کی زبان کے سوا کسی زبان سے آشنا نہیں ہوتے اور مذہبی نعروں کے بغیر ان کےخون کی گرمی اور ان کے دماغوں میں نشہ پیدا نہیں کیاجاسکتا، تو جنگِ آزادی کے رہنما اس زبان کے سوا اپنی عوام سے کسی اور زبان میں گفتگو نہیں کرتے، وہ مذہبی نعروں ہی کے ذریعہ اور اللہ کے نام کی بلندی، اسلام کی سربلندی اور اللہ کے احکام کے اجراء کا لالچ دے کر ان کو آگ سے کھیلنےاور خاک و خون میں لوٹنے کی دعوت دیتے ہیں، اور اسی ایمانی طاقت سے (جس کےمقابلہ میں کم سے کم مسلمان اقوام میں کوئی طاقت نہیں پائی جاتی) آزادی کا قلعہ فتح کرتے ہیں اور ناقابلِ تسخیر دشمن کو سرنگوں ہونے پر مجبور کرتے ہیں، لیکن جیسے ہی یہ ناگزیر منزل طے ہوتی ہے اور ملک کا اقتدارِاعلیٰ اور ان سیاسی رہنماؤں کی زبان میں ’’ ملک و قوم کی قسمت‘‘ ان کے ہاتھ میں آجاتی ہے، وہ ملک کو مغربیت اور نامذہبیت (سیکولرازم) کے راستے پر ڈال دیتے ہیں، اورجلد سے جلد مذہب اور معاشرہ کی اصلاح، اسلامی قانون (پرسنل لا) کی تنسیخ و ترمیم اور ملک کو مغرب کے سانچہ میں