کلچرل پروگرام، آزادانہ تفریحی مشاغل، مردوں، عورتوں کا اختلاف روز افزوں ہے، مخلوط تعلیم کا رواج عام ہورہا ہے، اور مذہب بیزار اور لادینی عناصر غالب اور زندگی پر حاوی ہوتے جارہے ہیں۔
اس المیہ کی آخری کڑی یہ ہے کہ ان سطور کے لکھنے کے وقت خالص اسلامی عقیدے اور مسلم اکثریت کا یہ ملک اس فرقہ اور اقلیت (نصیری فرقہ) کے زیراقتدار ہے، جس نے صحیح اسلامی تعلیمات کا کبھی اثر قبول نہیں کی، یہ اقلیت جو مسلمان عوام کی طرف سے ہمیشہ سے بغص وکینہ اور سخت عداوت کی حامل رہی ہے، اس اقلیت نے اپنے فوجی پیشے عسکری تفوق اور میدان میں دوسری جماعتوں کے مقابلہ میں زیادہ حصہ لے کر ملک کے اقتدارِ اعلیٰ پر اپنا تسلط قائم کرلیا، سابقہ اسلامی حکومتوں نے اس فرقہ کی صحیح تعلیم اور اس میں دین صحیح کی اشاعت پر کوئی توجہ نہیں کی، اس لیے وہ ہر زمانے میں ملک کی وحدت وسالمیت کے لیے خطرہ بنا رہا، اور غیر اسلامی وبیرونی طاقتوں سے سازباز کرتا رہا۱؎۔
اس کی ایک نہایت عبرتناک مثال یہ ہے کہ بعث پارٹی عرصہ تک عراق کی سیاست و حکومت پر حاوی رہی ہے، اور ان سطروں کی تحریر کے وقت تک شام پر اسی کی حکومت ہے، اس پارٹی کا نعرہ اور مینی فسٹویہ ہے:۔
’’ایک ابدی پیغام رکھنے والی ایک عرب قوم وہ اس خطۂ ارض کو اپنا وطن عربی سمجھتی ہے، جس میں عرب قوم بستی ہے، اور وہ حصۂ زمین وہ ہے جو طورس اور بشتکوریہ کے پہاڑوں خلیج بصرہ اور بحرِ عرب، حبشہ کے پہاڑوں اور صحرائے اعظم، بحر اٹلانٹک اور بحرِ روم کے درمیان واقع ہے‘‘۔
ذیل میں پارٹی کے منشور سے بعض اہم اقتباسات دیے جارہے ہیں، جس سے اس کے
------------------------------
۱؎ اس کی تفصیل ابن کثیر کی ’’البدایۃ و النہایۃ‘‘ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے حالات، شیخ ابوزہرہ کی کتاب ’’ابن تیمیہ‘‘ اور مؤلف کی کتاب ’’تاریخ دعوت وعزیمت‘‘ میں ملے گی۔