جماعۃ التکفیر والہجرۃ کے ذمہ داروں کو سرسری مقدمہ کے بعد پھانسی دے دی گئی، اور اس قضیہ کو دین اور سیاست کو جمع کرنے کی سازش کہا گیا، اس کے بعد ایسے لوگوں پر سختی کی گئی، جو تحریکی ذہن رکھتے تھے، انورالسادات کے اس ذہن کی وجہ سے وہ مصری علماء جو عبدالناصر کے عہد میں مصر سے باہر چلے گئے تھے، مصر واپس آنے میں متردد تھے، بعض علماء جو مصر میں موجود تھے، مصر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
انورالسادات نے امن منصوبہ کو قبول کرکے اور اسرائیل جاکر مسلمانوں سے ہی نہیں، بلکہ عربوں سے بھی اپنے کو منقطع کرلیا، اس کے نتیجہ میں ان کو امریکہ پر مزید اعتماد کرنا پڑا، اس کے بعد کیمپ ڈیویڈ (CAMP DAVID) معاہدہ ہوا، جس کی پورے عالم میں مخالفت کی گئی، اور اس کو ذلت و رسوائی کے معاہدہ سے تعبیر کیا گیا، اس معاہدہ کے نتیجہ میں ان کے یہودیوں سے تعلقات کی وہی نوعیت پیدا ہوگئی، جو پہلے عیسائیوں سے تھی، اور اسلامی حلقوں سے اسی قدر دوری، اسلامی حلقوں کی طرف سے مخالفت کے نتیجہ میں ان کے خلاف تشدد اور گرفت میں مزید اضافہ ہوا، اور دونوں حلقے دو مخالف کیمپوں میں بٹ گئے، اور اس طرح ۷۳ء کی جنگ کے نتیجہ میں جو اتحاد اسلامی وجود میں آیا تھا، وہ خود انورالسادات کے اقدامات سے پارہ پارہ ہوگیا، اور مصر سے قیادت کی جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں، وہ منقطع ہوگئیں۔
مصر کا یہ المیہ ہے کہ انقلاب مصر سے قبل اور انقلاب مصر کے بعد مصری حکومتوں نے اپنا اصل حریف دینی عنصر کو سمجھا، اور اپنی ساری توانائی ان کے اثر کو کم کرنے میں صرف کی، اللہ تعالیٰ نے مصر کو جو علمی، فوجی، تمدنی اور فکری صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں، جو اس میں خوداعتمادی اور عزم اور قوتِ عمل اور قیادت کی صلاحیت کی ضامن ہوسکتی تھیں، وہ سب اس کشمکش کی نذر ہوگئیں، اور مصر پورے عہد میں فکری تضاد، اور اخلاقی افلاس