یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ انورالسادات ذاتی طور پر مذہب دشمن نہیں ہیں، اور جمال عبدالناصر کے برخلاف وہ نماز روزہ کی کسی حد تک پابندی بھی کرتے ہیں، اسی سے بعض لوگوں کو ان کے بارے میں خوش فہمی ہوگئی، اور انہوں نے ان کو ’’الرئیس المؤمن‘‘ کا لقب دے دیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ اُن پر ملحد ہونے کا الزام نہیں لگایا جاسکتا، لیکن ان کے خود بیانات سے ان کے دین کے تصور کی تشریح ہوتی ہے، وہ دین سے مراد مجرد دین لیتے ہیں، اسلام نہیں، اسی لیے انہوں نے کچھ عرصہ ہوا، ایک ایسی عبادت گاہ کا تصور پیش کیا جس میں مسلمان، عیسائی اور یہودی عبادت کرسکیں، تاکہ تینوں مذاہب ’’بقائے باہم‘‘ کے اصول پر قائم رہیں، مصری ریڈیو سے تلاوت قرآن کریم کے موقع پر ایسی آیتوں کی تلاوت سے حتی الامکان احتراز کیا جاتا ہے، جن میں عیسائیوں کے خلاف کسی طرح کا مواد ہو، ایسی کتابوں کی اشاعت، یہاں تک کہ یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے ایسے موضوعوں پر مناقشہ ممنوع ہے، جن میں عیسائیت کے خلاف کچھ کہا گیا ہو۔
انورالسادات نے اپنی کتاب ’’البحث عن الذات‘‘ میں لکھا ہے (اور اس کا ذکر انہوں نے اپنی تقریروں میں بھی کیا ہے) کہ وہ کمال اتاترک سے بچپن ہی سے متأثر تھے، ان کی تحریروں سے مغربی تمدن اور تصور زندگی سے تأثر ظاہر ہوتا ہے، اس کے مقابلہ میں مشرقی تمدن کے بارے میں احساسِ کہتری کا اظہار ہوتا ہے، ان کی زندگی کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مغربی تمدن اور دین کے محدود تصور کے قائل ہیں، جس میں بہرحال اسلام کی بالادستی یا اس کا زندگی سے تعلق ناقابلِ تسلیم ہے، اس لیے انہوں نے اپنے عہد میں ان جماعتوں یا شخصیات کو آزادیٔ رائے یا آزادیٔ عمل نہیں دی جن سے ان کے اس تصور کو نقصان پہونچتا ہو، اس طرح ان دینی تحریکات سے کشمکش اسی دائرہ میں رہی جس دائرہ میں جمال عبدالناصر کے عہد میں تھی۔