اپنا کھویا ہوا وقار بڑی حد تک بحال کرلیا تھا، مصر کو عالم عربی کی قیادت کا بہترین موقع فراہم کیا، سعودی عرب کی تائید اور پٹرول کی جنگ نے عربوں کو ایک متحدہ محاذ کی شکل میں کھڑا کردیا تھا، ان کی تادیبی کاروائیوں نے بڑی طاقتوں کے اعصاب متأثر کردیے، دنیا کی ساری توجہ عربوں کے اقدام پر مرکوز ہوگئی تھی، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کے مستقبل کا انحصار عربوں کے اقدام پر ہے، اس موقع پر اتحاد اسلامی کا جو مظاہرہ ہوا اس کی گذشتہ تاریخ میں بہت کم مثالیں مل سکتی ہیں، لیکن بعد کے بعض اقدامات نے عرب قیادت کی جلدبازی اور حکمت عملی کی کمی اور دشمنوں پر اعتماد کا ایسا مظاہرہ کیا جس سے عالم اسلام کو سخت مایوسی ہوئی، مصر نے جنگ کے فوراً بعد اسرائیل سے انفرادی طور پر صلح کی کوشش شروع کردی۔
۱۹۷۳ء کی جنگ اور اس کے بعد اتحاد محض اسلامی روح کا مرہون منت تھا، جس کا اعتراف مصری قیادت نے شروع میں کھل کر کیا، لیکن بہت جلد انورالسادات نے اس رخ کو موڑنے کی کوشش کی، اس لیے کہ وہ جمال عبدالناصر کی طرح دینی رجحان کے لوگوں کے بارے میں خوف کی نفسیات کا شکار تھے، انہوں نے اس کی کوشش کی کہ اس جنگ سے اور کمیونسٹوں کی مخالفت سے دینی ذہن کو فروغ حاصل ہورہا ہے، اس کو بڑھنے سے روکا جائے۔
۷۷ء میں جماعت التکفیر والہجرۃ کے قضیہ نے انورالسادات اور ان کے ماتحت حکام کی دینی دشمنی کو عیاں کردیا، ڈاکٹر حسین الذہبی کے قتل کو دینی تحریکات کے خلاف پروپیگنڈہ کے لیے جس طرح استعمال کیا گیا اور دین کے خلاف کھل کر صحافت میں مہم چلائی گئی اور علماء کی اور دینی کتابوں کی بے حرمتی کی گئی، اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوگئی کہ انورالسادات دین کے بارے میں وہی تصور رکھتے ہیں، جس کے مغربی مفکرین داعی ہیں، یعنی محدود عبادت، اور سیاست اور زندگی سے اس کی مکمل بےدخلی۔