تھے، اخوان کی طاقت کا صحیح اندازہ تھا، اور وہ دینی ذہن کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے، انہوں نے اس کے مقابلہ کے لیے اپنے نئے آقا امریکہ کو خوش کرنے کے لیے عیسائیوں کی ہمت افزائی کی، اور ان کی تقویت کا راستہ اختیار کیا، بابابشنودہ کو جو اقلیتی رہنما کی حیثیت رکھتے تھے، مساوی حقوق نہیں بلکہ امتیازی حقوق عطا کیے، باباشنودہ نے عیسائیوں کے لیے مزید حقوق کا مطالبہ کیا، شریعت کی تنفیذ کا جب مطالبہ ہوا تو انہوں نے پرزور طریقہ پر اس کی مخالفت کی، امریکہ سے تعلقات میں اضافہ کے ساتھ عیسائی اثرات میں برابر اضافہ ہوتا رہا (امریکن ’’جامعہ امریکیہ‘‘ یونیورسٹی) کے موجود ہوتے ہوئے ایک خالص عیسائی یونیورسٹی قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا، اور امریکہ نے اس کے سارے مصارف برداشت کرنے کا وعدہ کیا، انورالسادات نے اس کو منظور کرلیا۔
مصر کے ان نئے رجحانات کا خارجی سیاست پر یہ اثر پڑا کہ افریقہ کے ممالک میں ان اسلامی تحریکوں سے مصر نے چشم پوشی اختیار کی جو عیسائی حکومتوں کے خلاف تھیں، اور بعض موقعوں پر اسلامی تحریکوں کے کچلنے میں مصر نے عیسائی حکومت کی مدد کی، مکاریوس جلاوطنی کے عہد میں جب مصر گئے تو ان کا شاہانہ استقبال کیا گیا، حکومت کے اس منفی رویہ اور عیسائیوں کے ساتھ غیرمعمولی رعایت اور ان کی پشت پناہی اور سیاسی آزادی کے ساتھ اخوان کے ساتھ امتیازی سلوک نے دینی حلقوں میں انورالسادات کو مشکوک بنادیا، جمال عبدالناصر کے عہد میں اسلامی ذہن کے لوگوں پر مظالم اور بربریت کے ذمہ داروں کے ساتھ نرم رویہ بلکہ تجاہل نے انورالسادات کو مزید مشتبہ کردیا، جس کے نتیجہ میں انورالسادات اسلامی ذہن کے لوگوں میں غیر مقبول ہوگئے۔
۱۹۷۳ء کی جنگ نے جس میں مصر کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی تھی، جس سے مصر نے