ہمت افزائی کی، اور یساری (LEFTIST) رجحانات کو دبانے کی کوشش کی، سیاسی قیدیوں کو رہا کیا، ان میں اخوانی بھی تھے، پریس کو قدرے آزادی دی، اور آہستہ آہستہ سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کی اجازت دی، لیکن اس محدود آزادی کے ساتھ پولیس اور سیکورٹی فورس کا وہ نظام باقی رکھا جو جمال عبدالناصر کے عہد سے ملک میں قائم تھا۔
اس محدود آزادی کے نتیجہ میں دینی تحریکوں نے دوبارہ کام شروع کیا، اخوانیوں نے اپنا ضبط شدہ رسالہ ’’الدعوۃ‘‘ دوبارہ جاری کیا، الدعوۃ کی پہلی اشاعت کا جس طرح ملک میں استقبال کیا گیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصری قوم حق کی آواز کے لیے کتنی پیاسی تھی، پہلی اشاعت کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے، بعض ایڈیشن بازار میں آتے ہی ختم ہوگئے۔
مصر کی یونیورسٹیوں میں اسلامی ذہن کے طلباء یونین کے انتخابات میں غالب آگئے، تقریباً ساری یونیورسٹیوں میں ان کا قبضہ ہوگیا، عبدالناصر کے عہد کے مظالم پر کتابیں شائع ہوئیں اور ہر کتاب کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہوئے، اور عوام میں مقبول ہوئے، عوام نے شریعت کے نفاذ پر زور دینا شروع کیا، اور یہ مطالبہ طاقت پکڑتا گیا، اس کی قوت کے پیشِ نظر حکومت کے ذمہ داروں نے اس سلسلہ میں مثبت رویہ اختیار کیا، لیکن بواسطہ اس رجحان پر کنٹرول کرنے کی کوشش جاری رہی، اس لیے کہ دینی ذہن کے اس فروغ کو مصری حکومت اپنے لیے سیاسی طور پر خطرناک تصور کرتی تھی، یساری عناصر سے کشمکش کے پیش نظر اس کے لیے یہ بھی ممکن نہ تھا کہ وہ دینی ذہن کو براہِ راست کچلنے کی کوشش کرے، روس کے منفی رویہ اور یساریوں کی اس کے ساتھ ہمدردی نے انورالسادات کو ایسے اقدامات پر مجبور کیا جو دینی عنصر کی تقویت کا باعث بنے۔
انورالسادات کو جو جمال عبدالناصر کے ہر منصوبہ میں شریک بلکہ مشیر کی حیثیت رکھتے