کی آزادی سے محروم هونا پڑا جو کسی ملک کے لئے ایک نعمت اور مصر کا خاص طور پر طره امتیاز رها هے، عالم اسلامی سے اس کے رشتے کمزور اور همسایه عرب ممالک سے اس کے تعلقات مجروح هوگئے عالم اسلامی میں اس کی دینی شهرت کو اور عالم عربی میں اس کی قائدانه حیثیت کو دھبه لگا، سوئز کے کامیاب معرکه (۵۶ ء ) کے بعد اس نئی قیادت نے پریس اور ریڈیو کی طاقت سے اور اپنی اس طلاقت لسانی اور بلند آهنگی سے جس میں مشکل سے کوئی مشرقی ملک اس کا حریف اور همسر هوسکتا هے، دنیا کو یه تاثر دیا که مصر سارے عرب کا نجات دهنده ثابت هوسکتا هے، اور وه صرف اسرائیل هی کی چهوٹی سی ریاست نهیں بلکه بڑی مغربی طاقتوں سے بھی پنجه آزمائی کرسکتا هے، یهاں تک که اس نے (مئی ۶۷ ء میں) آبنائے تیران اور خلیج عقبه کی ناکه بندی کرلی اور ساری دنیا کی نگاهیں سوئز کے معرکه کے بعد اس پر لگ گئیں، لیکن دنیا کو اس وقت سخت مایوسی اور حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب ۵/جون ۶۷ کو اسرائیل نے اچانک جمهوریه عربیه متحده پر حملہ کردیا اور فوراََ هی مصری فوجوں کی پسپائی کی خبریں آنے لگیں، اس حمله سے چند گهنٹوں کے اندر مصر کی فضائی طاقت کا خاتمه هوگیا، اور چار پانچ دن کے اندر اندر جمهوریه عربیه نے جو جنگ کی قیادت کررها تھا، بلاشرط جنگ بندی قبول کرلی، اسرائیل کا نه صرف غزه اور شرم الشیح پر قبصه هوا اور نه صرف جزیره نمائے سینا کو اس نے اپنے تسلط میں لے لیا بلکه سوئز کی پوری مشرقی پٹی پر وه قابض هوگیا اور مصر اس کے توپوں کی زد میں آگیا، اس وقت حقیقت میں اور انصاف پسند مشاهدین کو اس کا پورا احساس هوا که مصر نے ایمانی واخلاقی طاقت اور اسلامی حمیت کو مسلسل نظر انداز کرکے جو اس کی طاقت کا بهت بڑا چشمه تھا، اور خالص ماده پرستانه نقطهء نظر اپنا کر کچھ فائده نهیں اٹھایا، لوگوں کو یه بھی محسوس هوا که عرب قوم پرستی اور اشتراکیت ایک هوا بھری هوئی مشک کی طرح تھی جس کی سوئی چبھوتے هی ساری هوا نکل گئی، اور یه بھی دنیا کو