مکروہات پر صبر، دین کی حمیت،عزت وناموس ک اپاس اور خوداری کا احساس حاصل ہو سکے، اس کی جگہ شک و اضطراب، بزدلی، خوف و "دہن" ۱؎ عافیت پسندی اور راحت کوشی نے لے لی ہے تشکیک کی اس زبردست اور منصوبہ بند کوشش کے نتیجہ میں، اور اس سستے ادب کے اثر سے جنسی جذبات اور نفسانی تسلی کے اصول پر قائم ہے، پوری عرب قوم اس معنوی قوت سے محروم ہوتی جارہی ہے، جو نازك وقتوں میں كسی قوم كا كا سب سے بڑا سہارا اور سب سے مؤثر طاقت ہوتی ہے، تشكك و ذہنی انتشار نے تاریخ كے ہر دور میں مختلف قوموں كو سخت نقصان پہنچایا ہے، بہت سی تہذیبیں اور قدیم تمدن محض اس كی وجہ سے بالآخر صفحہ ہستی سے مٹ گئے، یہ صورت حال جو اس وقت عالم عربی میں پائی جاتی ہے، اور جس كے پیدا كرنے میں سب سے بڑا ہاتھ نشر و اشاعت اور ترجمہ و تصنیف كی تحریك اور ڈراموں، افسانوں، ناولوں اور ٹیلیویژن اور ریڈیو كا ہے، ۵/جون ١۹٦۸ء كے المناك حادثہ كا سب سے اولین سبب ہے، اور اس كے بعدسے جو افسوسناك حالات جاری ہیں، ان سب كی ذمہ داری اسی پر ہے۔
اس كے بر عكس اخوان المسلمون‘‘ كی تحریك نے مضبوط عقیدہ، دین پر اور اس كی صلاحیت اور مستقبل پر اعتماد اور اخلاقی استقامت كی ایك ایسی لہر پیدا كی تھی جس نے اس كے پيروں كے دل میں عقیدہ و اصول كی خاطر جاں فروشی كا جذبہ، ملت كی عزت و آبرو كے لیے جان و دل سے قربانی كا حوصلہ اور جوانمردی و خطر پسند ی كی وہ اعلی صفات پیدا كردیں جن كی جھلك ۴۸ء كی جنگ فلسطین میں نمایاں طریقہ پر نظر آئی، لیكن جب عالم عربی اس تحریك كی قیادت سے (مختلف وجوہ كی بنا پر جن كی تفصیل كا یہ موقع نہیں) محروم ہو گیا، اور وہ ٦۷ء كی جنگ میں اپنا كردار ادا كرنے سے باز ركھی گئی، اور كوئی ایسی جماعت بھی میدان میں نہیں آئی جو
------------------------------
۱؎ حدیث شریف میں ’’وہن‘‘ كی تشریح یہ آئی ہے كہ ’’دنیا سے محبت اور موت سے نفرت‘‘(ابو داؤد)