آدرش سمجھنے لگے، ان کی محبت کا دم بھرنے لگے اور اس تحریک کو عربی روح کی ایک نئی بیداری اور "نشاۃ ثانیہ" تصور کتنے لگے جو ان کے نزدیک عربوں کو قدیم سیادت و قیادت اور ماضی کی شوکت و سطوت کے منصب پر واپس لا سکتی ہے، اس میں نہ تعجب و حیرت کی کوئی بات ہے نہ تنقید اور ملامت کا کوئی جواز، قوت و عزت اور غلبہ و اقتدار حاصل کرنے کی خواہش فطری اور قدرتی ہوتی ہے، عرب نوجوانوں کو بھی اس کی خواہش کرنے اور پوری طاقت کے ساتھ عرب ممالک اور ریاستوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کا حق ہے، لیکن اس حقیقت کا ایک رنج دہ پہلو یہ ہے کہ اس رحجان اور طریق فکر کے ساتھ آخر میں کچھ ایسے واقعات، اقدامات اور روح تعلیمات اسلامی کے منافی مقاصد شامل ہو گئے، جو اسلام کے اثر کو کم کرتے ہیں اور عرب عوام اور قائدین کا رشتہ عالمگیر اسلامی برادری سے منقطع کرتے ہیں، وہ ان کے اندر عرب قوم پرستی، اس کے تقدس کا خیال اور اس سے قلبی و روحانی وابستگی پیدا کرتے ہیں، جو ایک مستقل بالذات فکر و نظریہ اور عقیدہ و مذہب کا خاصہ ہے، اس کا نتیجہ ہے کہ عالم عربی کے اہم اور مرکزی شہروں میں تعلیم یافتہ نوجوانوں میں الحاد غیر معمولی تیزی کے ساتھ پھیلنا شروع ہو گیا ہے، اور عرب قومیت کے پرجوش حامیوں اور داعیوں کے منھ سے ایسے الفاظ نکلنے لگے ہیں جن سے کفر اور ارتداد کا اندیشہ ہوتا ہے۔ انہوں نے رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کو تنہا ذریعہ نجات سمجھنا اور اس حیثیت سے دیکھنا چھوڑ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں کی عزت و سربلندی اور عربوں کی عظمت و دوام کا سرچشمہ اور منبع ہیں، انہوں نے اپنی تہذیبی ترقی اور قوت و عظمت کے حصول کے لئے ماضی بعید کی تاریک راہوں میں تلاش و جستجو کی، اگر جاہلیت عرب کی کبھی مذمت و تحقیر کی جاتی ہے، اور اس پر کوئی شدید تنقید ہوتی ہے تو ان کو گرانی ہوتی ہے، اور بعض اوقات اس کا رد عمل ہوتا ہے اور جاہلی عصیبت (حمیۃ الجاھلیۃ) پیدا ہو جاتی ہے، اور وہ اس کی طرف سے مدافعت کرنے لگتے ہیں۔