رکھتی ہے اور بہت ضروری ہے کہ قدیم بیڑیاں اور بندشیں جو اس کی آزادانہ سرگرمیوں اور ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں ختم ہوجائیں تاکہ وہ زندگی کی تعمیر میں ایجابی قدم اور عمل کے ساتھ حصہ لے سکے۔ ۱؎
ان جزئیات اور شواہد سے صرف نظر بھی کرلیا جائے تب بھی اس میں کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ذہن اور فکر جو اس منشور اور اس کے مرتب میں کارفرما ہے، اور جس نے اس کو یہ قالب عطا کیا ہے ، وہ خالص مادہ پرستانہ ذہنیت ہے، اگر اس منشور سے عرب اور مصر کا لفظ نکال دیا جائے جو بار بار آتا ہے، اور جس کی وجہ سے اس ماحول اور اس معاشرہ کا پتہ چل جاتا ہے، جس کے لئے یہ منشور مرتب کیا گیا ہے، اور اس کو کسی نامذہبی (سیکولر) اور سوشلسٹ اسٹیٹ کی طرف منسوب کردیا جائے تو کچھ فرق نہیں پڑے گا، اس لئے کہ یہ سب حکومتیں عقیدہ کی آزادی اور انسان اور تہذیب انسانی پر مذاہب سے پیدا ہونے والی روحانی اقدار کے اثر و تسلط کی معترف ہیں۔
اس انقلاب کے قائدین نے مصری سوسائٹی اور مصری فکرو دماغ کی مکمل تبدیلی اور تشکیل جدید کے لئے بہت سے مثبت اور معین اور ٹھوس قدم اٹھائے جو دراصل پوری عرب قوم کی ذہنیت تبدیل کرنے کا ایک ابتدائی مرحلہ تھا، انہوں نے عربی قومیت پر ایک مذہب اور عقیدہ کی طرح زور دیا، اہل قلم اور ادیبوں نے ایک بلند ترین مقصد اور آدرش کی حیثیت سے اس کے گن گائے، ان کو عہد فرعونی پر فخر کرنے اور اس کے احیاء کی دعوت دینے کا موقع فراہم کیا گیا اور ایک قومیت، تہذیب اور ملکی ورثہ کی حیثیت سے فرعونیت کی دعوت دی گئی، کہنے والوں نے یہاں تک کہا کہ ’’ہم عرب ہیں، اور فراعنہ کے فرزند ہیں‘‘ ’’فرعون‘‘ کے لفظ میں اب لوگوں کے لئے نفرت و کراہیت کا عنصر اور کسی ننگ و عار کی بات نہیں رہی جس کو قرآن مجید نے ایک دائمی حقیقت بنا دیا ہے۔
------------------------------
۱۔ باب ہفتم