ملک کی ترقی اور آزاد ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں جگہ پانے کے لئے واحد راستہ سمجھتے، مروجہ نظام تعلیم، تربیت ورہنمائی کا پورا ڈھانچہ، شائع ہونے والا لٹریچر، کسی میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ ان فرسودہ روایتی اور تقلیدی نظاموں، منصوبوں اور طریقوں کے علاوہ جو اس سے قبل کمال اتاترک نے اپنے ملک میں آزمائے تھے، ان نوجوانوں میں کوئی اور بلند تر فکر اور تخیل پیدا کرسکیں، وہ قومیت کا نام بدل ۱؎ کر اس تحریک اور منصوبہ کی تقلید اپنے ملک میں کرنا چاہتے تھے، وہ اس میں سوشلزم کا بھی پیوند لگا رہے تھے، جو کمال اتاترک کے عہد میں اتنی واضح اور طاقتور اور صاف شکل میں نہ آیا تھا، اور اس نے لوگوں کے افکار وخیالات اور ذہنیت پر اس قدر تسلط حاصل نہیں کیا تھا، اس طبقہ کو اب صرف اس بات کا انتظار تھا کہ اس کو عالم عربی کی قیادت حاصل ہو اور وہ اس فکری منصوبہ کو عملی جامہ پہناسکے۔
۲۳ ؍ جولائی ۱۹۵۲ء کا انقلابِ مصر قدرتی طور پر کامیاب رہا اور ہر اس شخص نے جو ان غلط حالات میں تبدیلی کا خواہشمند اور ملک کا بہی خواہ تھا، اور ملک کی قوت وآزادی اور ترقی کا طلب گار تھا، اس انقلاب کا خیر مقدم کیا، مختلف حلقوں اور مختلف اندازِ فکر رکھنے والے اشخاص نے اس انقلاب سے مختلف قسم کی امیدیں وابستہ کرلیں، اس انقلاب کے لئے یہ ممکن تھا کہ وہ مصر کو اس کے مرکزی منصب پر واپس لے آتا اور اس کو عالم اسلام کی تربیت و رہنمائی اور اعتماد و احترام کا بلند درجہ عطا کرتا، اس کے لئے آگے کا راستہ صاف کرتا اور زندگی کا ایک ایسا طریقہ اور نظام تیار کرتا جو مصری قوم کے دینی جذبہ اور عالم عربی کے مزاج (جس کو اللہ تعالیٰ نے صرف دین کے ذریعہ متحد اور طاقتور کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے) سے ہم آہنگ ہوتا، اسی طرح وہ عہدِ جدید کے مزاج سے بھی زیادہ میل کھاتا جو قوم پرستی (نیشنلزم) سے بیزار ہوچکا ہے، اور اپنے
------------------------------
۱۔ ترکی کی قوم پرستی کے بجائے عرب قوم پرستی