فرسودہ دائرہ عمل سے جو اپنے خیال وعمل میں عہد ماضی سے وابستہ ہیں، ایک ابھرتی ہوئی قوت میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جو جدید مسائل پر اپنا عمل کرسکے۔
یہ بہت اہم تبدیلیاں ہیں جن کے بغیر (یا ان چیزوں کے بغیر جو ان کی قائم مقام ہوسکتی ہوں) ہمارے نزدیک عرب سوسائٹی کسی حالت میں ترقی نہیں کرسکتی، بغیر کسی متفقہ اخلاقی قوت اور ابھارنے والی طاقت کے، اور بغیر کسی اندرونی موثر تحریک کے جو ٹھوس مواقع تک پہونچاسکے، بہتر سے بہتر معاشرتی یا قومی پروگرام بھی محض کاغذ کی زینت رہے گا، اور عرب سوسائٹی کی روحانی پسپائی بدستور جاری رہے گی، اخوان کی اپیل میں معاشرہ کے اکثر مسائل کا برمحل جواب پوشیدہ ہے، جب تک کوئی دوسرا گروہ ان مسائل سے نمٹنے کی نسبتاً زیادہ طاقتور خواہش اور جذبہ کے ساتھ سامنے نہ آئے، یہ یقین کیا جاسکتا ہے کہ اخوان کی تحریک باوجود ظلم و استبداد کے زندہ رہے گی، اب تک کمیونسٹوں کو چھوڑ کر اخوان وہ واحد جماعت ہیں جنہوں نے ایک ایسا نصب العین پیش کیا ہے، جو زبانی عقیدتمندی سے آگے بڑھ کر زیادہ بڑے پیمانہ پر تعاون حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘ ۱؎
لیکن ایک طرف اس تحریک کے رہنماؤں کی عملی سیاست میں ذراقبل ازوقت شرکت کی وجہ سے دوسری طرف عرب نیشنلزم اور سوشلزم کے علمبرداروں کے برسراقتدار آجانے اور اس تحریک کو پوری قوت سے کچل دینے کی بنا پر عالم عربی اور اس کے نتیجہ میں پورا عالم اسلام اس طاقتور اور وسیع تحریک کے فوائد سے محروم ہوگیا، جو بلاشبہ عصر حاضر کی سب سے بڑی اسلامی تحریک اور تیزی کے ساتھ ابھرتی ہوئی دینی دعوت اور طاقت تھی، یہ عالم اسلام
------------------------------
۱۔ (ISALM IN MODERN HISTORY, P. 161, 162)