ان کی کتابوں میں مستشرقین کے خیالات و ’’تحقیقات‘‘ کا کامل عکس پایا جاتا ہے، ان کو ان کے بنیادی خیالات کو پھیلا کر بیان کرنے کا خاص ملکہ ہے، ذہنی اپچ، طبیعت کے بے چینی اور جدت پسندی ان کی خصوصیات ہیں۔
یہ توقع بالکل بجا اور فطری تھی کہ ڈاکٹر طہٰ حسین جیسا ذہین شخص جس کو علم و ادب کی دنیا میں ایک اہم مقام حاصل ہے، جس نے بچپن میں قرآن حفظ کیا اور اس کا مطالعہ کرتا رہا، جس نے کچھ عرصہ ازہر میں تعلیم حاصل کی، علوم و ادبیات کا بہت وسیع اور آزاد نظر سے جائزہ لیا، یورپ کی مادی تہذیب، ملحدانہ فلسفہ اور قوم پرستی (نیشنلزم) کے مفاسد اور اس کی ناکامی کو بچشم خود دیکھا اور اس کے آزاد خیال مغربی مفکرین کی بے لاگ تنقید سنی، اسی کے ساتھ تاریخ اسلام اور سیرتِ نبوی کا ذوق و دلچسپی کے ساتھ مطالعہ کیا، ایسے شخص سے یہ توقع بالکل قدرتی اور حق بجانب تھی کہ وہ مصر کو (فکر و تہذیب کے میدان میں) اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے اور اپنی شخصیت کی آزادانہ تعمیرو تربیت اور اس عظیم پیغام (اسلام) کے علمبردار بننے کی دعوت دے گا، جس سے اللہ نے اس کو صدیوں پہلے سرفراز کیا اور اس طرح مصر کو عالمی قیادت و رہنمائی کا منصب حاصل ہوسکتا تھا، حتیٰ کہ مصر اگر واقعۃً براعظم یورپ کا ایک ٹکڑا ہوتا اور مغربی تہذیب کے خاندان کا ایک فرد، جب بھی ایک بلند ہمت، بلند نظر مسلمان مصری مفکر کا یہی فرض تھا کہ وہ مصر کو اس پیغام کا حامل بننے اور اس کے ذریعہ دنیا کے نقشہ میں اپنی جگہ بنانے کی دعوت دیتا، اس لئے کہ آسمانی پیغام جو تمام انسانوں کے لئے عام ہیں، ان تہذیبوں سے بہت بلند وبالا اور بہت وسیع اور لافانی ہیں، جو کسی خاص دور میں قائم ہوتی ہیں، وہ جغرافیائی حدبندیوں اور تاریخی ادوار سے آزاد ہیں، اگر وہ ایسا کرتے اور اس کی دعوت کو لے کر کھڑے ہوتے تو وہ ایک ٹھوس دینی بیداری کے نقیب اور ایک صحیح انقلاب کے