محبوب اور ان کے مثالی ادیب و مفکر ہیں، مشرقِ وسطیٰ کی جدید نسل پر شاید ان سے زیادہ کسی نے اثر نہیں ڈالا، وہ ایک طرز نگارش کے بانی سمجھے جاتے ہیں، جس کو اگرچہ بعض ناقدین اور اہل ذوق زیادہ پسند نہیں کرتے مگر اس کی سلاست، صحتِ زبان اور قدیم عربی کا حسن مسلّم ہے۔
وہ سنہ ۱۸۸۹ء میں مصر میں پیدا ہوئے، بہت بچپن ہی میں بصارت سے محروم ہوگئے، مکتب میں داخل ہوکر قرآن شریف حفظ کیا، کچھ عرصہ ازہر میں رہے لیکن ان دونوں سے بیزاری کا اظہار ان کی کتابوں میں جابجا نظر آتا ہے، جامعہ مصریہ میں تعلیم مکمل کرکے پیرس گئے اور وہاں سے ڈاکٹریٹ کیا، واپسی پر جامعہ مصریہ کے کلیۃ الآداب میں پہلے پروفیسر پھر پرنسپل مقرر ہوئے، اس خدمت سے سبکدوش ہوکر تصنیف و تالیف میں منہمک ہوئے، ۱۹۴۹ء میں مصر کے وزیر تعلیم منتخب ہوئے اور پاشا کا خطاب حاصل کیا، ان کی مشہور تصنیفات ’’فی الشعر الجاھلی‘‘ ’’فی الادب الجاھلی‘‘ ’’ذکریٰ الی العلاء‘‘ ’’الایام‘‘ ’’مستقبل الثقافۃ فی مصر‘‘ ہیں۔
انہوں نے بہت سے ایسے خیالات و تحقیقات کا اظہار کیا جو ادب و تاریخ اور دین کے مسلم و معروف خیالات و عقائد کے خلاف تھیں، اور جن پر مصر کے ادبی و دینی حلقوں میں سخت تلاطم اور ہنگامہ پیدا ہوا، آخر میں اس کی تلافی کے لئے یا پختگی و سن رسیدگی کے اثر یا محض توفیق خداوندی سے سیرت و صحابہ کے حالات پر بعض موثر و دل آویز کتابیں لکھیں جن میں سے ’’علیٰ ھامش السیرۃ ‘‘ اور ’’الوعد الحق‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
طہٰ حسین مغربی تمدن و فلسفہ کے گرویدہ اور فرانسیسی ثقافت و ادب کے دل دادہ ہیں، ان کو فرانس سے گہرا ذہنی و ادبی لگاؤ تھا، انہوں نے ایک فرنچ خاتون سے شادی کی، ان کی اولاد کی تعلیم و تربیت بھی فرانسیسی ماحول میں ہوئی، ان کو فرانسیسی زبان و ادب پر اچھی قدرت تھی، اور انہوں نے اس کے بڑے ادبی ذخیرہ اور خیالات کو عربی میں منتقل کیا ہے،