اولیں رہنما اور پیشرو بن سکتے تھے، جو مصر سے شروع ہوتا اور پورے عالم عربی میں پھیل جاتا اور یہ بات ان کی عظیم صلاحیتوں کے عین مطابق ہوتی۔
لیکن عالم اسلام کے تعلیم یافتہ طبقہ میں مغربی ثقافت کے گہرے اثر و نفوذ اور اس کی طاقتور گرفت کی وجہ سے وہ اسلامی سوسائٹی بہت کمزور ہوچکی تھی، جس میں طہٰ حسین نے نشوونما پایا تھا، چنانچہ انہوں نے اس کی دعوت دینی شروع کی کہ مصر اپنے آپ کو مغرب کا ایک حصہ سمجھے، انہوں نے اپنی ساری ذہانت، ادبیت اور تاریخی مطالعہ اس چیز کے ثابت کرنے میں صرف کیا کہ مصری فکر و دماغ یا تا بالکلیہ مغربی فکر و دماغ ہے یا اس سے بہت زیادہ قریب ہے، اور اس کا یونانی فکر سے جس قدر گہرا لگاؤ ہے، مشرقی فکر سے اسی قدر بعد، وہ قدیم زمانہ اور عہدِ فرعونی سے آج تک کسی زمانہ میں کسی حملہ آور تہذیب سے متاثر نہیں ہوا، وہ نہ اہل ایران سے متاثر ہوا (جن کو مصر پر کچھ عرصہ حکومت کرنے کا موقعہ ملا) نہ یونانیوں سے نہ عربوں اور مسلمانوں سے (جنہوں نے صدیوں مصر پر حکومت کی) ان کے نزدیک اگر مصری فکر و دماغ قدیم زمانہ سے لے کر آج تک کسی علاقہ سے متاثر ہوا ہے تو وہ بحرروم کا منطقہ اور اس کا فکر و دماغ ہے، اور اگر اس نے مختلف قسم کے فوائد کا تبادلہ اور افادہ و استفادہ کا طبعی فرض انجام دیا ہے تو صرف بحرِ روم کی اقوام سے ۱؎۔ وہ کہتے ہیں:۔
’’اس سے بڑھ کر بے عقلی اور سطحیت کی بات کوئی نہ ہوگی کہ مصر کو مشرق کا ایک حصہ اور مصری فکر کو ہندوستان یا چین کی طرح مشرقی فکر سمجھا جائے۔‘‘ ۲؎
اس بنیاد پر ڈاکٹر طہٰ حسین مصریوں کو مغربی تہذیب کو اپنانے اور اہل مغرب کے ساتھ (جو دراصل ایک عقلی و فکری خاندان کے افراد ہیں) ان کے نظام ہائے زندگی ان کی قدروں
------------------------------
۱۔ ص: ۲۲
۲۔ ص: ۴۱