خیال پیش کرتا تو مصر میں نہ صرف اس کی حمایت کرنے والا بلکہ پورے خلوص اور پورے زورِ قلم اور انشاپردازی کے ساتھ اس کا شارح و داعی کوئی نہ کوئی ادیب اور مفکر اسی وقت مہیا ہوجاتا۔
مثلاً قرآن مجید کا انسانی تعبیر کا نتیجہ ہونا، دین و سیاست کی تفریق، اسلام کی نظام حکومت سے یکسر بے تعلقی اور اس کا محض ایک اعتقادی، اخلاقی اور عبادتی نظام ہونا، ۱؎ سکولرازم کی دعوت، عربی زبان و ادب کے اولین مآخذ (شعر جاہلی وغیرہ) کی صحت و ثبوت سے انکار، حدیث کی قیمت، حجیت اور سنت کی صحت کا انکار یا تشکیک، عورتوں کی آزادی اور مردوں کے ساتھ مساواتِ کلی اور بے پردگی کی تلقین و تحریک، فقہ اسلامی کو رومن لاء سے ماخوذ اور اس کی اسپرٹ سے متاثر قرار دینا، قدیم تہذیبوں کے احیاء کا نعرہ، عہد فرعونی کی تقدیس، اس کی تہذیب، ادب اور کارناموں پر فخر، مقامی عامی زبان میں تصنیف و تالیف اور لاطینی حروف کو اختیار کرنے کی دعوت، مغربی قانون کی بنیاد و اصول پر قانون سازی اور عربی قومیت اور مادی سوشلزم، اور بعض وقت مارکسی کمیونزم
------------------------------
۱۔ اس موضوع پر مصر میں ایک ازہری عالم شیخ علی عبدالرازق کے قلم سے ایک مستقل کتاب شائع ہوئی، وہ اس وقت شرعی قاضی (جج) بھی تھے، کتاب کانام ’’الاسلام و اصول الحکم‘‘ ہے، جس نے مصر کے دینی حلقہ میں سخت بے چینی اور ناراضگی کی لہر پیدا کردی اور اس کے نتیجہ میں مصنف کو ازہر کی سند اور اس کے حقوق و امتیازات سے محروم ہونا پڑا، اس کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مستشرقین کے خیالات تعلیم یافتہ طبقہ میں یہاں تک مقبول ہوچکے تھے کہ ایک عالم دین ان کی پرزور وکالت اور تبلیغ پر آمادہ ہوجاتا ہے، اس کتاب میں مصنف کا دعویٰ ہے کہ ’’خلافت ایک محض عربی اور رائج الوقت نظام تھا جس کو مسلمانوں نے اختیار کرلیا تھا، اور شریعت اس کا پابند نہیں کرتی‘‘ وہ ثابت کرتے ہیں کہ ’’خلافت، قضاء، سرکاری عہدے اور حکومت کے مناصب سب خالص دنیاوی عہدے اور انتظامات ہیں، جن کی نہ کوئی دینی حیثیت ہے، نہ شریعت سے ان کا کچھ تعلق ہے‘‘۔