اگر یہ مغربی زبانوں کی ان کتابوں کو عربی میں منتقل کرتے جو سائنٹفک علوم پر لکھی گئی ہیں، اور جن سے عالمِ عربی کا کتب خانہ اب بھی خالی ہے، جس طرح جاپان کے ادباء اور اہل قلم نے کیا اور اس کی بدولت اپنے ملک کو ایک ایسا صنعتی ملک بنادیا جو طبعی علوم اور صنعتی علوم میں یورپ کے بڑے سے بڑے ملک سے آنکھیں ملا سکتا ہے، لیکن افسوس ہے کہ ان کی تمام تر توجہ اور دلچسپی کا مرکز صرف ادبیات، علوم عمرانیہ، فلسفہ، تاریخ، ناولیں، افسانے اور الحاد و بغاوت اور فکری انتشار کے داعیوں اور علمبرداروں کی تصانیف تھیں جنہوں نے ان اسلامی ممالک میں بھی ایک نیا فکری انتشار اور اخلاقی انارکی پیدا کردی، اور قومی شخصیت و کردار کو اور کمزور کردیا، اور یہاں غیر ضروری طریقہ پر افکار و اقدار اور مکاتبِ فکر کی ایک نئی کشمکش پیدا ہوگئی۔
اس مغربی رجحان اور فکر کو مقبول بنانے کی کوشش میں مصر کے بعض چوٹی کے اہل قلم اور صاحبِ طرز انشاء پرداز شریک تھے، اور اس میدان میں متعدد ایسی شخصیتیں نمایاں ہوئیں جن کی زبان اور زورِ بیان کا سارا عرب لوہا مانے ہوئے تھا، لیکن دوسری نہ صرف مصر بلکہ پورے مشرقِ عربی میں عملی، طبعی، میکانیکی اور ریاضیات کے میدان میں مجتہد قسم کے افراد مطلق پیدا نہ ہوسکے جن کی ان علوم میں برتری اور بالادستی اور ان کی تحقیقات اور علمی کارناموں کی قدروقیمت کا اعتراف مغرب کو بھی کرنا پڑتا اور دنیا کے بین الاقوامی علمی حلقہ میں ان کو کوئی ممتاز مقام حاصل ہوتا۔
لندن یونیورسٹی کے پروفیسر (BERNARD LEWIS) نے اپنے ایک مضمون میں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کی اس کمزوری کا ذکر کرتے ہوئے صحیح لکھا ہے:۔
’’(مشرقِ وسطیٰ) میں اوریجنل (طبعزاد) سائنسی کام میں صحیح معنیٰ میں کوئی ایسی ترقی نہیں ہوئی جیسا کہ جاپان، چین یا ہندوستان میں نظر آتی ہے، یہاں (مشرقِ وسطیٰ میں) طالب علموں