نہیں ہے) تو حقیقت آفتاب کی طرح روشن ہوجائے گی، اس وقت ہم کو مغرب کے تمدن کی قدرو قیمت معلوم ہوگی، اور ہم کو یقین آجائے گا کہ کوئی اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ جدید مغربی علوم کی بنیاد پر قائم نہ ہو، اور یہ کہ انسانوں کے حالات خواہ مادی ہوں یا اخلاقی علم کے تابع فرمان ہونے چاہئیں، اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ متمدن قومیں قومیت، زبان، وطن اور مذہب میں کتنا ہی اختلاف رکھتی ہوں حکومت کی شکل، انتظام، عدالت، خاندانی نظام، طریقۂ تربیت، زبان، رسم الخط اور طرز تعمیر یہاں تک کہ معمولی عادات، لباس، سلام اور خوردو نوش میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں، اسی بنا پر ہم اہل مغرب کو بطور مثال اور نمونہ کےپیش کرتے ہیں، ان کی تقلید پر زور دیتے ہیں، اور اسی بنا پر ہم اپنے اہل ملک کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ مغربی خاتون کے حالات کا مطالعہ کریں۔‘‘۱؎
یہ دونوں کتابیں مصر کے جدید حلقہ میں بڑی مقبول ہوئیں، ان کی اشاعت اور آزادیٔ نسواں کی تحریک میں تجدد پسندوں نے جو سرگرمی دکھائی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عورتوں میں آزادی و بے پردگی کی ایک شدید لہر پیدا ہوگئی، مردوں عورتوں کے مخلوط اجتماعات کا رواج ہوچلا اور تعلیم حاصل کرنے کے لئے مصری لڑکیاں اور طالبات یورپ اور امریکہ کا سفر کرنے لگیں، اسکندریہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمدمحمد حسین اپنی تازہ فاضلانہ کتاب ’’الاتجاہات الوطنیہ فی الادب المعاصر‘‘ میں لکھتے ہیں:۔
’’اس دعوت و تحریک کے نتیجہ میں عورتوں میں بے پردگی اور بے حجابی، آزادی و بے قیدی کا جو رجحان پیدا ہوا اس سے اسلامی خیال کے لوگ گھبرا گئے، عورتوں کے حالات میں جو انقلاب آرہا تھا، قدیم آداب و رسوم باپ اور شوہر کے اقتدار کے خلاف بغاوت
------------------------------
۱۔ المرأۃ الجدیدۃ ص: ۱۸۵، ۱۸۶