صلاحیت نہ رہتی جو ہر زمانہ اور ہر قوم کے مناسب ہے، شریعت کے وہ احکام جو مروجہ عادات ومعاملات پر مبنی ہیں، ان میں حالات اور زمانہ کے مطابق تغیر و تبدل کیا جاسکتا ہے، شریعت کا مطالبہ صرف اس قدر ہے کہ یہ تغیر و تبدل کوئی ایسا نہ ہو جس سے اس کی عام بنیادوں میں سے کوئی بنیاد متاثر و مجروح ہو۔‘‘۱؎
اس کتاب میں مصنف نے چار مسائل سے بحث کی ہے، ۱) پردہ ۲) عورت کا عام زندگی میں حصہ لینا ۳) تعدد ازدواج ۴) طلاق۔ ان چاروں مباحث میں انہوں نے اہل مغرب کے مسلک کو اختیار کیا ہے، اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہی اسلام کا مسلک ہے۔
مغربی تعلیم، مغربی تہذیب اور اس کے اقدار سے مصنف کا گہرا تاثر ان کی دوسری کتاب ’’خاتونِ جدید‘‘ میں زیادہ نمایاں ہے، اس کتاب میں مصنف نے جدید مغربی طریقۂ بحث و استدلال کو اختیار کیا ہے، جو ان تمام مسلمات و عقائد کو مسترد کرتا ہے، جس کی تجربہ یا حقیقت تائید نہیں کرتی، خواہ وہ مسلمات و عقائد دین کے راستہ سے پہونچے ہوں یا کسی اور راستہ سے، یہی وہ طریقہ ہے جس کو اہل مغرب واحد علمی طریقہ (سائنٹفک) کہتے ہیں، اس کتاب کے آخر میں مصنف نے مغربی تہذیب و معاشرت کے طریقوں کو اختیار کرنے کی کھلی دعوت دی ہے، مسلمانوں اور مصریوں کو اپنی تہذیب و معاشرت اور ماضی پر جو ناز ہے، اس پر نکتہ چینی کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے:۔
’’یہی ہماری وہ بیماری ہے جس کے علاج کی سب سے پہلے ضرورت ہے، اس کا صرف ایک علاج ہے، وہ یہ کہ ہم اپنی نئی نسل کو مغربی تمدن کے حالات سے آشنا بنائیں اور وہ اس کے اصول و فروع سے واقف ہوں جب وہ وقت آئے گا (جو کچھ زیادہ دور
------------------------------
۱۔ تحریر المرأۃ ص: ۱۶۹