آگے چل کر وہ لکھتے ہیں :
"مصری آزاد خیال اس سے (یعنی یوروپین آزاد خیال سے) بھی آگے بڑھا ہوا ہوتا ہے، وہ اپنے آپ کو ایک ایسے طوفانی سمندر میں پاتا ہے، جہان نہ کشتی ہے، اور نہ ناخدا، نہ تو اس کا ماضی اور نہ اس کا حال ہی اس پر کوئی پرزور اخلاقی رکاوٹیں حائل کرتا ہے، وہ دیکھتا ہے کہ اس کے ہموطنوں کی اکثریت مذہب کو نہایت مناسب اصلاحات کا مخالف تصور کرتی ہے، اور اس مذہب کو جو کہ ایسے نامناسب نتائج کی طرف لے جاتا ہو، نہایت غصہ اور ناراضی کے عالم میں پامال کر کے وہ مذہب کو مطلقاً چھوڑ بیٹھتا ہے، اپنے مذہب سے علٰیحدہ ہو کر علاوہ اپنے عریاں ذاتی مفاد کے کوئی دوسری رکاوٹ اس کو اخلاقی قوانین کی حدود میں نہیں رکھتی، حالانکہ وہ یوروپین جس کی وہ نقل کرنے کا کوشاں ہے اپنی قوم کے اخلاقی قوانین کا پابند رہتا ہے، اس کا (یعنی مصری نوجوان کا) سماج دورغ اور دھوکہ دہی کو پرزور طور پر ممنوع قرار نہیں دیتا، مختلف قسم کی اخلاقی بدکاریوں پر سماجی بدنامی کا ڈر بھی عملاً اس پر اثر انداز نہیں ہوتا، اپنے آبا کے مذہب کو چھوڑ کر وہ اس پر نظر بھی نہیں ڈالتا، وہ اس کو چھوڑ ہی نہیں دیتا، بلکہ اس کو لات مار دیتا ہے، وہ آنکھیں بند کر کے یورپین تہذیب کے دامن کی طرف جھپٹتا ہے، لیکن اس کو یہ علم نہیں ہوتا کہ مغربی تہذیب کا بہ ظاہر نمایاں پہلو صرف اس کا بیرونی حصہ ہے۔ فی الحقیقت یوروپین تہذیب کے جہاز کو عیسائی اخلاق کی گہری قوت بیجا حرکات سے محفوظ رکھتی ہے، یہ قوت چونکہ ایک پنہاں قوت ہے، اس لئے یوروپین طرز حیات کے باطل نقال اس کو نہیں پا سکتے، وہ قسمیہ کہتا ہے کہ میں نے مذہبی تعصبات کو