ان افراد کی مغرب زدگی، اسلامی معاشرہ میں ان کی حیثیت، ان کی حیرانی و سرگردانی اور اسلام کے شجرۂ حیات سے ان کی بے تعلقی کس حد تک پہونچ گئی تھی، اس کا اندازہ بھی حسب ذیل اقتباسات سے ہوگا، وہ اپنی کتاب ’’مصر جدید‘‘ (MODERN EGYPT) میں لکھتا ہے:
’’مصری معاشرہ تیزی کے ساتھ تغیر پذیر ہے جس کا فطری نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ایک ایسے افراد کی جماعت پیدا ہوگئی ہے، جو مسلمان ہیں تو اسلامی تہذیب سے عاری اور اگر یوروپین ہیں تو کمر شکستہ (کمزور اور یورپی صفات سے معرا) یورپ کا اثر یافتہ مصری بسااوقات برائے نام تو مسلمان رہتا ہے، لیکن فی الحقیقت عموماً وہ منکر الہٰیات (AGNOSTIC) ہوتا ہے، اور اس کے اور الازہر کے ایک عالم کے درمیان اتنی ہی بڑی خلیج حائل ہوتی ہے جتنی کہ ایک عالم اور ایک یورپین کے درمیان۔‘‘ ۱؎
لارڈ (CROMER) آگے فرماتے ہیں:۔
’’سچ تو یہ ہے کہ یورپ کی تعلیمی چکی سے گذر کر نوجوان مصری اپنی اسلامیت یا کم از کم اس کا بہترین جزء کھو ہی بیٹھتا ہے، وہ اپنے مذہب کے بنیادی عقائد کھو بیٹھتا ہے اس کو یہ یقین نہیں رہتا کہ میں ہمہ وقت اپنے خالق کے سامنے ہوں جس کے سامنے کبھی نہ کبھی مجھے اپنے اعمال کا جوابدہ ہونا پڑے گا، لیکن وہ اب بھی اسلامی زندگی کے ان حصوں سے مستفید ہوتا رہتا ہے، جو اس کی اخلاقی کمزوریوں کو برداشت کرسکتے ہیں، اور جو معاملات زندگی میں اس کے مفاد اور سہولتوں سے تطابق رکھتے ہیں، لیکن اسلامیت سے دور ہوکر تعلیم یافتہ مصری بہ مشکل ہی عیسائیت کی طرف مائل ہوتا ہے۔‘‘ ۲؎
------------------------------
۱۔ THE EARL OF CROMER MODERN EGYPT (1908) VOL. 2 P. 228, 229
۲۔ IBID. P.228