لیکن واقعہ اس کے خلاف ہے، ان عرب اور خالص اسلامی ملکوں میں ہمیں اقبال اور محمد علی جیسے مغرب بیزار اور اسلام کے عاشق زار نظر نہیں آتے حالانکہ دونوں مقدم الذکر حضرات نے مرکزِ اسلام سے بہت دور ایک عجمی اور غیر اسلامی ماحول میں زندگی گزاری، ان کی رگوں میں خالص ہندوستانی خون موجزن تھا، اور ان کا خمیر اس ملک کی خاک سے تیار ہوا تھا جو عربی زبان اور تہذیب سے نا آشنا رہی تھی، ۱؎ اور دونوں مغرب کی بھٹی میں سے سونا بن کر نکلے تھے، اس کے برخلاف مغرب میں تعلیم پانے والے اکثر عرب نوجوان مغرب کے نقیب اور وکیل بن کر واپس ہوئے اور مغرب کی تقلید اور اس کے تصورات واقدار کے پرجوش داعی بن گئے۔
لارڈکرومر نے جو ایک ایسے جدید مصر کی تشکیل کا سب سے بڑا مغربی داعی تھا، جو اسلام کے برائے نام رشتے کے ساتھ مغربی افکار و اقدار کا حلقہ بگوش اور علمبردار ہو، اس طبقے کی اعتقادی، ذہنی اور اخلاقی کیفیت کی تصویر کشی کی ہے، اور بڑی خوبی کے ساتھ دکھایا ہے کہ مغربی تعلیم کی چکی میں پس کر کس طرح ایک ایسی نئی مخلوق پیدا ہوئی ہے جو نہ پورے طور پر مسلمان ہے نہ مغربی، یورپ کے ’’عیسائی متشککین‘‘ اور مشرق کے مسلمان متشککین میں فرق ہے، اس کی بھی اس نے صحیح نشاندہی کی۔
------------------------------
۱۔ علامہ اقبال نے متعدد اشعار میں اپنی ہندوستانی نسل وقومیت کا اظہار کیا ہے، ایک فلسفہ زدہ سید زادہ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
میں اصل کا خاص سومناتی
آبا میرے لاتی و مناتی
تو سید ہاشمی کی اولاد
میری کفِ خاک برہمن زاد
اسی طرح مولانا محمد علی مرحوم بھی شمالی ہند کی ایک ہندوستانی نسل اور برادری کے فرد تھے۔