کے ساتھ جانے کے لیے صحیح اور معتدل راہ کیا ہے؟ آج تمام مسلم ممالک کو بالخصوص نئے آزاد ہونے والے اسلامی ممالک کو سب سے زیادہ اسی مخلصانہ مشورہ کی ضرورت ہے، اس سلسلہ میں ذرا سی غلطی اور تھوڑی سی بے اعتدالی ان کو کہیں سے کہیں لے جاسکتی ہے ۔
یک لحظہ غافل بودم و صد سالہ راہم دور شد
راقم سطور نے اسی جذبے کے ماتحت گزشتہ سال عربی میں ایک بسیط مقالہ کا آغاز کیا جس نے جلد ایک کتاب کی شکل اختیار کر لی، یہ کتاب شعبان سن 1382ھ (فروری سن 1963ء)میں " موقف العالم الاسلامی ، تجاۃ الحضارۃ الغریبۃ " (مغربی تہذیب کے بارے میں عالم اسلام کا رویہ ) کے نام سے شائع ہو گئی اور ممالک عربیہ کے علمی و دینی حلقوں میں توجہ اور دلچسپی سے پڑھی گئی، متعدد اہلِ فکر و نظر نے ناچیز مصنف کی ہمت افزائی کی مصنف کی خواہش و فرمائش پر عزیزی مولوی محمد الحسنی مدیر " البعث الاسلامی" نے ( جن کو اللہ تعالیٰ ترجمہ و تحریر کا اچھا سلیقہ عطا فرمایا ہے، اور مصنف کتاب کے اسلوب تحریر و طرز فکر سے ان کو خاص مناسبت ہے) اردو میں اس کا ترجمہ کیا ہے، میں نے جب اس ترجمہ پر نظر ثانی شروع کی تو اس میں متعدد جگہ اضافہ و تفصیل کی ضرورت محسوس ہوئی، اس عرصہ میں مسئلہ کے کچھ نئے پہلو سامنے آئے اور کچھ جدید مواد و معلومات مہیا ہوئے، اس لیے جابجا اضافے کیے گئے اور کہیں کہیں تبدیلی و ترمیم بھی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کتاب ترجمہ کے بعد تقریباً دو چند ہو گئی اور اس کی علمی قیمت و افادیت میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوا۔
اس عرصہ میں یورپ کا سفر پیش آگیا اور اس تہذیب کو اس کے اصل مرکزوں میں دیکھنے کا موقع ملا جس پر اس کتاب میں بہت کچھ اظہارِ خیال کیا گیا ہے، نیز ان جدید علمی مرکزوں میں بعض نئی مطبوعات و مآخذ دستیاب ہوئے جن سے استفادہ کیا گیا، اب ان تمام اضافات و اصلاحات کے ساتھ یہ کتاب " مسلم ممالک میں اسلامیت و مغربیت کی کشمکش" کے نام سے