تہذیب و معاشرت، تعلیم و تربیت، سیاست و آئین کے بارہ میں بلند توقعات قائم نہیں کی جاسکتیں، درحقیقت اکثر نئے آزاد یا قائم ہونے والے اسلامی ممالک ترکی کے نقشِ قدم پر سرگرم سفر یا آمادۂ سفر ہیں، اور ان کے سربراہوں میں (ان کی مغربی تعلیم وتربیت کے اثر سے) کمال اتاترک کی تقلید کا کم و بیش شوق پایا جاتا ہے۔
پاکستان میں تجدد، مغربی افکار واقدار کو اصل معیار مان کر جدید ’’اصلاحات‘‘ اور قوانین، ریڈیو، ٹیلیویژن، صحافت اور ادبیات کے ذریعہ ذہنی اور اخلاقی سانچہ کو تبدیل کرنے اورایک ایسی نئی نسل کی تیاری کاکام اب زیادہ عزم اور منصوبہ بندی کے ساتھ شروع ہوگیا ہے، جو مغربی تہذیب اور نامذہبی طرز حکومت کو آسانی کے ساتھ قبول کرسکے، مدارس اور مساجد کو حکومت کے زیر انتظام لینے کے بعد، علمائے دین اور مسلم عوام کی مخالفت، شورش اور کم سے کم عدم تعاون کا وہ خطرہ بھی باقی نہیں رہتا جو ان منصوبوں کی کامیابی میں مخل ہوسکتا ہے، ایک حقیقت بیں انسان جس کے سامنے تجدد پسند ممالک کی پچھلی تاریخ ہے، آسانی کے ساتھ پیش بینی کرسکتا ہے کہ اس ملک کے سربراہوں کے ارادے کیاہیں، اور یہ ملک (خواہ تدریجی اور خاموش طریقہ پر) کس منزل کی طرف گامزن ہے۔
بہرحال پاکستان کا اپنے بنیادی مقاصد سے انحراف اور عصر حاضر کی دوسری نامذہبی (SECULAR) اور تجدد پسند (MODERNIST) حکومتوں کی تقلید تاریخ جدید کا ایک عظیم سانحہ ہوگا اور ان کروڑوں افراد کے ساتھ بیوفائی جنہوں نے اس اسلامی معمل اور تجربہ گاہ کے قیام کے لئے شدید ترین تکالیف برداشت کیں اور عظیم قربانی پیش کی، اس سے بڑھ کر اس کا نقصان یہ ہوگا کہ یہ طرز عمل ہمیشہ کے لئے اس امنگ اور آرزو کو سرد کردے گا اور اس تجربہ کی کامیابی کے امکان کو اگر ختم نہیں تو نہایت بعید بنادے گا،