اور تجربہ گاہ ہے، جہاں اسلامی طریقِ زندگی کی افادیت، اسلامی اصول و قوانین کی صلاحیت اور اسلامی تہذیب کی فوقیت کا عملی ثبوت فراہم کیا جائے گا، اور دوسرے ابھرتے ہوئے ممالک کے لئے عملی مثال پیش کی جائے گی، اس کے برخلاف عائلی قانون (MUSLIM FAMILY LAWS 1961) نے یہ ثابت کردیا کہ پاکستان کے آئین ساز اور سربراہ مغربی افکار واقدار سے نہ صرف پوری طرح متاثر ہیں بلکہ ان کو آئین سازی کے لئے فیصلہ کن بنیاد سمجھتے ہیں، اور شریعت کی کاملیت اور ابدیت پر ان کو یقین نہیں۔
بالآخر نومبر ۱۹۶۳ء میں قومی اسمبلی نے اپنے ڈھاکہ کے اجلاس میں اس عائلی قانون کو منظور اور ان تمام ترمیمات کو جو اس بنیاد پر تھیں کہ یہ قانون قرآن و سنت کے نصوص و تصریحات اور اجماع و تعامل کے خلاف ہے مسترد کردیا اور لوگوں نے تعجب کے ساتھ پاکستان اور ہندوستان کے اخبارات میں یہ خبر پڑھی:۔
’’یہاں قومی اسمبلی نے کل بڑی اکثریت سے ’’عائلی قانون‘‘ میں ترمیم کی کوشش کو رد کردیا، اس کی بعض دفعات میں ترمیم کابل ایوان کے سامنے آیا تھا مارشل لاء کے زمانہ میں نافذ شدہ یہ عائلی قانون مردوں کے ایک سے زیادہ شادی کرنے کے آزادانہ اختیار کو منسوخ کرچکا ہے، ترمیم کے موافقوں نے اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ یہ قانون شریعت اور قرآن شریف کے خلاف ہے جس میں تعدد ازدواج کی کھلی اجازت دی گئی ہے، پاکستان کے روشن خیال طبقہ کا کہنا ہے کہ یہ اجازت وقتی اور ہنگامی تھی، اور اس کا مقصد سماج میں تدریجی اصلاح کرنا تھا۔‘‘
اسلام کے منصوص ۱؎ و اجماعی۲؎ مسائل کے بارہ میں جب پاکستان کا یہ رویہ ہے تو
------------------------------
۱۔ جن کے لئے قرآن مجید میں نصّ صریح موجود ہے مثلاً قانون میراث، مرد کے لئے طلاق دینے کی آزادی، تعدد ازدواج وغیرہ۔
۲۔ جن پر ساری امت کا اتفاق ہے۔