اور بے لاگ تاریخ اور انسانی تجربہ اس کی اجازت بھی نہیں دے گا کہ پھر اس کا نام لیاجائے پاکستان کی اس نازک اخلاقی ذمہ داری کو پروفیسر اسمتھ (WILFRED CANTWELL SMITH) نے بڑے اچھے انداز سے بیان کیا ہے، وہ اپنی کتاب (ISLAM IN MODERN HISTORY) میں لکھتے ہیں:۔
’’شاید پاکستانی کسی وقت یہ خیال کریں کہ اسلامی معاشرہ کی تعمیر کا کام ان کے ابتدائی اندازہ سے کہیں زیادہ دشوار طلب ہے، لیکن سوچا جائے تو اب ان کے لئے کوئی راہ مفر باقی نہیں، ان کے وعدے اور دعوے اتنے بلند بانگ اور واضح تھے کہ ان کی تکمیل سے گریز ناممکن ہوگیا ہے، ان کی تاریخ اب ’’تاریخ اسلام‘‘ ہوگی، ان کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے، اب خواہ وہ اسے پسند کریں یا اس پر نادم ہوں، بہرحال وہ ’’اسلامی ریاست‘‘ کے تصور کو نظر انداز نہیں کرسکتے اور نہ اسے زیادہ دیر سردخانہ ہی کی نذر کرسکتے ہیں، کیونکہ اس وقت اسلامی ریاست کے نظریہ کو ختم کرنے کا فیصلہ محض طریق کار کی تبدیلی کا فیصلہ ہی نہیں ہوگا یہ تو گویا اپنے دین اور وطن کی اساس پر کلہاڑا چلانے کے مرادف ہوگا اور تمام دنیا اس گریز سے یہی مطلب اخذ کرے گی کہ اسلامی ریاست کا نظریہ لایعنی اور اس کا نعرہ محض فریبِ نظر تھا، جو حیاتِ جدید کے تقاضوں سے نپٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا یا یہ کہ پاکستانی بحیثیت ایک قوم کے اسے اپنی قومی زندگی پر نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں، اس صورت میں دنیا کے نزدیک خود مسلمانوں کے معتقداتِ ایمانی ہی مشکوک اور قابلِ تنقید ٹھہریں گے۔‘‘ ۱؎
------------------------------
۱۔ ISLAM IN MODERN HISTORY P. 2 (ترجمہ: ماخوذ از ’’چراغِ راہ‘‘ نظریہ پاکستان نمبر)