مشرقی اسلامی ممالک میں جو مغربی نظام تعلیم عرصہ سے رائج تھا، اور مغربی تعلیمی مرکز جہاں ان لوگوں نے تعلیم حاصل کی تھی (جن کی تقدیر میں اس نئی اسلامی ریاست کی تشکیل اور رہنمائی کا نازک کام آیا تھا) اس سے بہتر نمونہ پیش کرنے سے قاصر تھے، جو ہمیں پاکستان کی موجودہ شکل میں نظر آتا ہے، وہ اس طرز فکر اور طرز حیات کے سوا دنیا کو کچھ اور نہیں دے سکتے تھے، اور جس طرح درخت کو اس کے قدرتی پھل پر ملامت نہیں کی جاسکتی، اس نظام تعلیم، اس کے مغربی رہنماؤں اور اس ذہنی ماحول سے شکایت بےجا ہے، کہ اس نے نوزائیدہ اسلامی ریاست کے لیے ایسا رہنما اور سربراہ مہیا نہیں کئے جن کو دین کی ابدیت و کاملیت اور اس کی لافانی صلاحیت پر غیر متزلزل یقین ہو اور اس کی توسیع و تبلیغ کے لیے ان کے اندر قرونِ اولی کا سا جوش پایا جاتا ہو، جو مغرب کے افکار و اقدار کے سامنے سپر ڈالنے کے بجائے اور اپنے ملک کے قانون و نظام کو ان کے سنچے میں ڈھالنے کے بجائے، مغربی تہذیب کے صالح اجزاء اور وسائل و علوم جدیدہ کے آہن کو اپنے یقین کی گرمی سے پگھلا کر اپنی تہذیب کے سانچے میں ڈھالیں اور اپنی ضرورت اور اپنے ڈھب کے سانچے تیار کرلیں.
افسوس ہے کہ ایجابی اور مثبت طور پر قیام پاکستان کی معتد بہ مدت میں بھی نظام تعلیم کو (جو کسی ملک کو کسی خاص رخ پر لے چلنے کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے) اسلامی روح اور اسلامی مقاصد کے لیے از سر نو ترتیب دینے، پاکستانی معاشرہ کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے، آئین کو اسلامی بنانے، ذہنی انتشار اور اخلاقی فساد کے معلوم و معروف ناکوں اور سرچشموں کو بند کرنے کے لیے کوئی جرأت مندانہ قدم نہیں اٹھایا گیا، اور کسی طرح اس کا ثبوت دینے کی مخلصانہ و سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی کہ پاکستان ایک نیا اسلامی معمل