ایک ایسی ہم آہنگی پیدا ہوسکے جو لوگوں کو تعجب و اعتراف پر مجبور کرے اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں کو اس کی تقلید اور دنیا کے مفکرین کو نئے طرز پر سوچنے پر آمادہ کرسکے۔
یہ سیاسی بالغ نظری اور بلند ہمتی جس کی نظیر اور دور میں عالمِ اسلام میں مشکل سے ملے گی مملکتِ پاکستان کی بنیاد تھی، ۴۷ء میں یہ خواب پورا ہوا اور پاکستان وجود میں آیا، پاکستان کے اوّلیں معماروں نے بھی اس فکری بنیاد کو تسلیم کیا جس پر اس عظیم ترین اسلامی ریاست کی تعمیر ہوئی تھی، اور اس کو اسلامی طریقِ زندگی کا ایک معمل یا تجربہ گاہ قرار دیا۔
مسٹر محمد علی جناح نے اپنی ایک تقریر میں جو انہوں نے ۱۱ اکتوبر ۴۷ء کو پاکستان کے بری، بحری اور فضائی فوج کے افسران اور سول حکام کے سامنے کی تھی، کہا:۔
’’قیام پاکستان جس کے لئے ہم دس سال سے کوشاں تھے، بفضلہ تعالیٰ اب ایک زندہ حقیقت ہے لیکن خود اپنی مملکت کا قیام ہمارے مقصد کا صرف ایک ذریعہ تھا، اصل مقصد نہیں تھا، منشا یہ تھا کہ ایسی مملکت قائم ہو جس میں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہیں، جس کو ہم اپنے مزاج اور ثقافت کے مطابق ترقی دیں اور جس میں اسلامی عدلِ اجتماعی کے اصول آزادی کے ساتھ برتے جائیں۔‘‘ ۱؎
لیاقت علی خاں مرحوم نے ۱۴ جنوری ۴۸ء کو پشاور کے ایک اجتماع میں کہا:۔
’’پاکستان ہمارے لئے ایک تجربہ گاہ ہے اور ہم دنیا کو دکھلائیں گے کہ تیرہ سو برس پرانے اسلامی اصول کس قدر کارآمد ہیں۔‘‘
ایک دوسرے موقع پر ۱۹۵۰ء میں انہوں نے ایک تقریر میں کہا:۔
’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ اس بناء پر کیا تھا کہ مسلمان اپنی زندگی اسلامی احکام کے
------------------------------
۱۔ SPEECHES QUAID-I-AZAM MOHAMMAD ALI JINNAH. P. 22