ہندوستانیوں کے دل میں مغربی تہذیب کا جادو ٹوٹ گیا لوگوں نے بڑے بڑے جلسوں اور مجمعوں میں انگریزی لباس اور غیرملکی کپڑوں میں آگ لگادی، بڑے بڑے دولتمندوں اور تعلیم یافتہ اشخاص اور مرفہ الحال طبقہ کے افراد نے مسرفانہ مغربی طرزِ زندگی کو خیرباد کہہ کر سادہ اور کفایت شعار قومی زندگی اختیار کرلی، ہزاروں آدمیوں کی زندگی میں، جن میں بڑے بڑے وکلاء، اہلِ ثروت اور تاجر تھے، انقلاب پیدا ہوگیا، انہوں نے انگریزی حکومت کے جیل بھردئیے اور طرح طرح کی سختیاں جھیلیں، انہوں نے ایسے ایثار، زہد و قناعت، دینی جذبہ، وطن دوستی، عام ہمدردی اور دینی حمیت وغیرت کا ۔۔۔۔ ثبوت دیا جس کی اس تحریک سے قبل کوئی توقع نہ تھی۔
اس تحریک کے ساتھ (جو مذہبی رنگ لئے ہوئے تھی) ہندوستان کی تحریک آزادی کا آغاز ہوا جس کا مقصد ملک کی آزادی، سامراج کا مقابلہ اور خود مختار حکومت کا قیام تھا، مشرق کی بہت سی سیاسی تحریکوں کے برخلاف یہ ایک ایسی نیم سیاسی نیم معاشرتی تحریک تھی، جو ایک خاص فکری اور اقتصادی فلسفہ رکھتی تھی، اس نے تہذیب جدید کے شکنجہ کو ڈھیلا کرنے اور قومی و وطنی ومذہبی شعور کو مضبوط کرنے میں نمایاں حصہ لیا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان دونوں عوامی تحریکوں نے ملک سے احساس کہتری ختم کرنے، عزتِ نفس اور خودداری کا احساس پیدا کرنے اور فکری و تہذیبی استعمار (سامراج) سے نجات حاصل کرنے کی خواہش پیدا کرنے میں وہ خدمت انجام دی ہے، جو بڑے بڑے علمی فلسفے بھی نہیں کرسکتے، اور یہ ان عوامی اور عملی تحریکات کا خاصہ ہے، جو ہر ملک میں سوسائٹی میں گھس کر اپنا کام کرتی ہیں، اور اس کے دل و دماغ پر چھا جاتی ہیں۔