ایک مضمون کا اضافہ کیا گیا ہے، جس میں کتاب کی پوری روح اور خلاصہ آگیا ہے۔
اسی عرصہ میں کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی (WESTERN CIVILIZATION AND MUSLIMS) کے نام سے شایع ہوگیا اور اعلیٰ انگریزی دان حلقہ میں ذوق و شوق اور قدر کے ساتھ پڑھا گیا، بہت سے اہل ذوق و اہل نظر کا احساس ہے کہ فکر و نظر اور مسلمانوں میں احساسِ خودی پیدا کرنے اور ان کی شخصیت کو ابھارنے کے جس سلسلہ کا آغاز عربی میں " ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین" اور اردو میں "انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر" سے کیا گیا تھا، اس کی اس کتاب کے ذریعہ تکمیل کی گئی، اس طرح وہ اس سلسلہ کی پہلی اور یہ اس کی دوسری کڑی ہے، پہلی کتاب کا اختتام اقبالؔ کے اس مصرعہ پر کیا گیا تھا۔
معمار حرم باز بہ تعمیر جہاں خیز
اب اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ عالم کی تعمیر نو میں اب کن حقائق و واقعات کا لحاظ اور کن پہلوؤں کی رعایت کرنی ہوگی، اور یہ کام خود اپنے ملکوں میں جو حرم کی دیوار کے زیر سایہ ہیں، کتنا پیچیدہ اور کتنا ضروری ہوگیا ہے؟ اگر اہل حرم کو اس کام کی عظمت و ضرورت کا کسی درجہ میں احساس ہوگیا تو مصنف کی آرزو بر آئی اور اس کی کوشش رائیگاں نہ گئی۔ ورنہ ع
یک حرف "کاشکے" است کہ صد جا نوشہ ایم
ابوالحسن علی ندوی
دائرہ شاہ علم اللہ رائے بریلی
19 ربیع الثانی 1390 ھ
24 جون 1970 عیسوی