اعلیٰ تعلیم پر تھا، اور عملی علوم کی طرف (جو ترقی کا زینہ اور مغربی اقوام کی ترقی اور کامرانی کا راز ہیں، اور جن کے انقلاب انگیز اثرات و نتائج کا انہوں نے انگلستان کے قیام میں مشاہدہ کیاتھا) انہوں نے خاطر خواہ توجہ نہیں کی، حالانکہ مغرب سے لینے کی اور اس میں کمال حاصل کرنے کی اگر کوئی چیز تھی تو یہی تھی، بلکہ انہوں نے صنعتی تعلیم کی تحریک و تجویز کی سخت مخالفت کی اور موضوع پر سخت اور تلخ مضامین لکھے، اس سلسلہ کا آخری مضمون وہ تھا، جو ۱۹ فروری ۱۸۹۸۴ میں انہوں نے علی گڑھ گزٹ میں شائع کروایا، جس کا مقصد (ّمولانا حالی کے بقول) یہ تھاکہ ’’ہندوستان کی موجودہ حالت کے لحاظ سے سردست ٹکنیکل ایجوکیشن کی چنداں ضرورت نہیں ہے، بلکہ سب سے مقدم اعلیٰ درجہ کی دماغی تعلیم کی ضرورت ہے، جو اب تک بالکل پورے طور پر پوری نہیں ہوئی ہے۔‘‘۱
صنعتی تعلیم کے خلاف سرسید کے جذبات اور ان کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے مولانا حالی لکھتے ہیں:۔
’’چند برسوں سے جو اکثر اعلیٰ حکام اپنی اسپیچوں میں ٹکنیکل ایجوکیشن کی ضرورت بیان کرتے تھے، اس سے سرسید کو بھی اندیشہ ہوگیا تھا کہ گورنمنٹ کا منشا ہائی ایجوکیشن یا لٹریری تعلیم کے موقوف کرنے کا ہے، اور اسی وجہ سے جب کوئی ایسی اسپیچ ان کی نظر سے گزرتی تھی، وہ ضرور اس کے برخلاف کچھ نہ کچھ لکھتے تھے، اور اسی بنا پر انہوں نے کانفرنس ۲ کے پانچویں اجلاس میں ایک ریزولیشن ٹکنیکل ایجوکیشن کے خلاف پیش کیا تھا، اور ریزولیشن کی تائید میں ایک طویل اسپیچ کی تھی جو کانفرنس کی رویداد میں مندرج ہے۔‘‘ ۳
------------------------------
۱۔ حیات جاوید ص: ۱۰۶ (حصہ دوم) انجمن ترقی اردو ایڈیشن
۲۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس علی گڑھ
۳۔ حیات جاوید ص: ۱۰۶ (حصہ دوم)