ہندوستان کی اسلامی سوسائٹی میں اس تعلیمی اور اقتصادی خلا کو بڑی حد تک پر کیا جو انگریزی اقتدار اور انقلاب حکومت کے بعد پیدا ہوگیا تھا، ایک حدتک اس نے مسلمانوں سے مایوسی اور بددلی بھی کم کی، اس ادارہ میں بعض بڑے لائق نوجوان، صاحبِ فکر، صحافی، اہلِ قلم اور ایسے لیڈر پیدا ہوئے جنہوں نے بعد میں تحریک خلافت اور تحریکِ آزادیٔ ہند کی پرزور رہنمائی کی، بعد میں جب پاکستان کی تحریک شروع ہوئی اور پھر پاکستان کی اسلامی ریاست وجود میں آئی تو اس کو اسی تعلیم گاہ کے فضلاء میں متعدد رہنما اور لائق منتظم دستیاب ہوئے لیکن مسلمانوں کے جدید نازک ثقافتی و فکری تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اس ادارہ نے وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی اس سے توقع تھی، یہ مغرب کے علمی و عملی تجربوں اور ذخیروں کو مسلم معاشرہ اور ملتِ اسلامیہ کے حالات و ضروریات کے مطابق ڈھالنے کا عظیم اور مجتہدانہ کام تھا، یہ ایک نئی اسلامی نسل کا پیدا کرنا تھا جو عقیدہ اور اصول میں مستحکم و مضبوط اور اس اہم کردار سے واقف ہو جو اس تہذیب عالم کی قیادت میں ادا کرنا ہے، اس کی نظر میں وسعت اور فکر میں لچک ہو، جدید علوم اور مغربی ثقافت سے اس نے اس کے اچھے پہلو اور اس کا مغز لے لیا ہو اور اس کی کمزوریوں اور غیر ضروری اجزاء سے احتراز کیا ہو، جس کے نتائج فکر و تحقیقات اپنے دماغ کا نتیجہ ہوں اور ان میں اسلامی ذہانت اور خود اعتمادی صاف جھلکتی ہو، اور جن کے فکر و عمل میں لذتِ کردار اور ’’جراتِ اندیشہ‘‘ پہلو بہ پہلو ہوں، یہ وہ نئی نسل تھی جس کا عالم اسلام بڑی بے چینی اور اشتیاق کے ساتھ عرصہ سے منتظر اور اس کے لئے چشم براہ تھا، یہ نسل (اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوتی) عالم اسلام کو اس تحیر واضطراب سے نجات دے سکتی تھی، جس میں وہ عرصہ سے مبتلا تھا، اور اس کو