سیاسی رجحان کے حق میں بہت افسوسناک ثابت ہوئے۔ ۱
غرضکہ سرسید کی دعوت اور تعلیمی نظریہ مغربی تہذیب کی دعوت کے ساتھ لازم و ملزوم سا ہوگیا، اور اس وجہ سے اس کی طرف سے لوگوں کے دلوں میں بہت سے شبہات پیدا ہوگئے، دینی حلقوں میں اس کے خلاف نفرت و بیزاری کی ایک لہر دوڑ گئی اور اس تحریک کے ساتھ اس کے مقاطعہ اور بائیکاٹ کی تحریک بھی شروع ہوگئی اور اس اس کے راستہ میں بہت سی غیر ضروری مشکلات پیدا کردیں، علماء دین نے جو انگریزی تعلیم اور مفید علوم کے حصول کے ابتداء میں مخالف نہ تھے،۲ یہ دیکھ کر کہ یہ تحریک ابتداء ہی سے غلط رخ پر پڑگئی ہے، اور اس میں بہت سے غیر ضروری اور غلط عناصر شامل ہوگئے ہیں، مثلاً اس میں مغربی تمدن سے کھلی ہوئی مرعوبیت اور اس کی دعوت ہے، اخلاق و عقائد پر اس کے مضر اثرات پڑ رہے ہیں، انگریز پروفیسروں اور پرنسپل کے غیر محدود اثر و نفوذ کی وجہ سے ملتِ اسلامیہ کے منتخب اور ذہین نوجوان جو اس کالج میں زیر تعلیم ہیں، انگریزی معاشرت و تمدن اور برطانوی سیاست سے متاثر و مسحور ہوتے جارہے ہیں، انہوں نے اس کی مخالفت میں پوری سرگرمی کا مظاہرہ کیا، دوسری طرف ان اثرات اور مغربی ماحول کی وجہ سے جو کالج پر چھایا ہوا تھا، ایک ایسی اسلامی نسل پیدا ہوئی جو نام کے لحاظ سے مسلمان اور ذہن و دماغ کے لحاظ سے خالص مغربی تھی، معاشرت و تمدن میں انگریزی طور و طریق کی پابند اور حامی، عقائد میں بعض اوقات کمزور اور متزلزل۔
دوسرا کمزور پہلو یہ تھا کہ ان کا سارا زور انگریزی زبان و ادب کے حصول اور
------------------------------
۱۔ تفصیل کے لئے دیکھئے ’’ہندوستانی مسلمان‘‘ از مصنف
۲۔ ملاحظہ ہو حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی کا فتویٰ درباب حلت تعلیم زبان انگریزی (فتاویٰ عزیزیہ)