مطابق ہو، اور عالمِ اسلام کے اس خلا کر پر کرسکے جو مغربی تہذیب اور علوم طبعیہ کی ترقی نے ذہنوں میں پیدا کردیا تھا۔
پہلی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس نظام تعلیم کو (جس کو مغرب میں آخری شکل دی گئی تھی) ہندوستان کے مسلم معاشرہ کے حالات اور تقاضوں کا پابند وماتحت نہیں بنایا جہاں اس کو نافذ کرنا تھا، انہوں نے اس کو نئے سرے سے ڈھالنے اور اسلامی شکل دینے پر غور نہیں کیا، نہ اس کو مغربی تمدن اور اس کی اس مادی روح سے پاک کرنے کی طرف کوئی توجہ کی جس کی ایک مشرقی اسلامی ملک کو کوئی ضرورت نہ تھی، انہوں نے اس نظام کو مغرب سے اس کی ساری تفصیلات، خصوصیات، اس کی روح و مزاج اور اس ماحول و روایات کے ساتھ جو اس سے وابستہ تھیں جوں کا توں ’’درآمد‘‘ کیا انہوں نے صرف مغرب کے تعلیمی نظام ہی پر اصرار نہیں کیا بلکہ مغربی تمدن اور روح کے قبول کرنے پر بھی شدید اصرار کیا، کالج کے قواعد میں یہ اصول قرار دیا گیا کہ کم سے کم ایک پرنسپل اور دو پروفیسر کالج میں اور ایک ہیڈ ماسٹر اسکول میں ہمیشہ یورپین ہونا چاہیے اور جہاں تک کالج کی آمدنی میں گنجائش ہو اس تعداد میں اور اضافہ کیا جائے۔۱
چنانچہ بڑے اساتذہ میں کم سے کم چار پانچ ضرور انگریز ہوتے تھے جو مختلف شعبوں میں تنظیم و نگرانی کے فرائض انجام دیتے تھے، کالج کے نظام اور طلبہ کے اخلاق پر ان کا گہرا اثر تھا اپنے ان اثرات کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ملکی سیاسیات میں بہت اہم رول ادا کیا، کالج کے پرنسپل مسٹربک مشہور سیاست داں اور ہندوستان کی اسلامی سیاست کے پہلے انگریز رہنما تھے، اس رہنمائی کے سیاسی نتائج مسلمانوں کے
------------------------------
۱۔ حیاتِ جاوید ص: ۸۳، (دوسرا حصہ) انجمن ترقی اردو ایڈیشن