عورتوں کی خوبیاں اور خامیاں |
یک ایسی |
|
حضرت عائشہ صدیقہفرماتی ہیں کہ ایک انصاری خاتون کی بیٹی جس کی اُس نے شادی کردی تھی ،اُس کے بال جھڑگئے تو وہ خاتون اپنی بیٹی کے بارے میں نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ مسئلہ دریافت کیا کہ اُس کے شوہر نے مجھے یہ کہا ہے کہ میں اُس کےبالوں میں کسی اورعورت کےبال ملادوں، آپﷺنےاِرشادفرمایا:”لاَ، إِنَّهُ قَدْ لُعِنَ الْمُوصِلاَتُ“نہیں ! ایسا نہیں کرنا بال ملانے والی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے۔(بخاری:5205) حضرت سیدنامعاویہ نے اپنے حج کے سال میں جبکہ(مدینہ منوّرہ میں)خطاب کیا تو اپنے ایک سپاہی کے ہاتھ سے بالوں کا گھچہ لیا اور اُسےدکھاتے ہوئےاِرشادفرمایا:اے اہلِ مدینہ! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے نبی کریمﷺسے سنا ہے،آپ اِس عمل(بالوں میں بال ملانے)سے منع فرمایا کرتے تھے اور فرماتے: ”إِنَّمَا هَلَكَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ حِينَ اتَّخَذَ هَذِهِ نِسَاؤُهُمْ“بنی اسرائیل جبکہ اُن کی عورتوں نے بالوں میں بال ملانے کے اِس طریقے کواختیار کیا تٍووہ ہلاکت کا شکار ہوگئے۔(مسلم:2127) ایک اور روایت میں حضرت سیدنامعاویہ کا یہ اِرشاد نقل کیا گیا ہے:”مَا كُنْتُ أُرَى أَنَّ أَحَدًا يَفْعَلُهُ إِلَّا الْيَهُودَ إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلَغَهُ فَسَمَّاهُ الزُّورَ“میرا خیال یہی ہے کہ یہ صرف یہودیوں کا طریقہ ہے،بیشک نبی کریم ﷺکو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے اس کا نام”زُوْر“ یعنی جھوٹ رکھا۔(مسلم:2127)