عورتوں کی خوبیاں اور خامیاں |
یک ایسی |
|
حضرت عبد اللہ بن عمرونبی کریمﷺکایہ ارشادنقل فرماتے ہیں:”لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَتَسَافَدُوا فِي الطَّرِيقِ تَسَافُدَ الْحَمِيْرِ، قُلْتُ: إِنَّ ذَاكَ لَكَائِنٌ؟ قَالَ:نَعَمْ لَيَكُونَنَّ“قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک ایسا وقت آئے گا کہ لوگ گدھوں کی طرح راستوں میں ایک دوسرے سے بدکاری کریں گے، حضرت عبد اللہ بن عمرونے سوال کیا کہ یا رسول اللہ !یہ ضرور ہوگا ؟ آپﷺنے جوب دیا : جی ضرور بضرور ہوگا ۔(صحیح ابن حبان :6767) ایک روایت میں آپﷺنےقربِ قیامت کے احوال کوذکر کرتے ہوئےاِرشاد فرمایا:حَتَّى تَمُرَّ الْمَرْأَةُ فَيَقُومُ إِلَيْهَا، فَيَرْفَعُ ذَيْلَهَا فَيَنْكِحُهَا وَهُمْ يَنْظُرُونَ، كَمَا يَرْفَعُ ذَيْلَ النَّعْجَةِ، وَرَفَعَ ثَوْبًا عَلَيْهِ مِنْ هَذِهِ السُّحُولِيَّةِ فَيَقُولُ الْقَائِلُ مِنْهُمْ: لَوْ تَجَنَّبْتُمُوهَا عَنِ الطَّرِيقِ، فَذَلِكَ فِيهِمْ كَأَبِي بكر وعمر رَضِيَ الله عَنْهما، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ الزَّمَانَ وَأَمَرَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَى عَنِ الْمُنْكَرِ فَلَهُ أَجْرُ خَمْسِينَ مِمَّنْ صَحِبَنِي وَآمَنَ بِي وَصَدَقَنِيلوگوں کی حالت اِس قدر بد تر ہوجائے گی کہ راستہ چلتی ہوئی کوئی عورت کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے گی تو اُن لوگوں میں سے کوئی شخص اُٹھ کر(بدکاری کے لئے ) عورت کا دامن اِس طرح اُٹھائے گا جیسا کہ کسی دنبی کی دُم اُٹھاتے ہیں ،پس اُس وقت کوئی کہنے والا کہے گا کہ عورت کو لے کر دیوار کی اوٹ میں چلے جاؤ، وہ کہنے والا اُس دن اُن لوگوں میں اجر و ثواب کے اعتبار سے ایسا ہوگا جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق تمہارے درمیان مرتبہ رکھتے ہیں ، پس اُس دن جس نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا تو اُس کے لئے ایسے پچاس لوگوں کا اجر و ثواب کا ہوگا جنہوں نے مجھے دیکھا ، مجھ پر ایمان لائے ، میری اطاعت کی اور میری اتباع کی ، یعنی حضرات صحابہ کرام ۔(المطالب العالیہ بزوائد المسانید الثمانیہ لابن الحجر :4471)