مختصراً اور’’ خطبات الاحکام‘‘ سے کسی قدر اضافہ وتغیرکے ساتھ چنداحکام لکھے جاتے ہیں۔
احکامِ قربانی
۱۔ ہرعاقل بالغ مرد و عورت مسلمان مقیم جس کے پاس بقدر نصاب1 چاندی یا روزمرہ کی حاجت ضروریہ سے زائد یا اتنی ہی مالیت کااسباب ہو،اس پرواجب ہے کہ اپنی طرف سے قربانی کرے۔
۲۔اونٹ، بکرا، دنبہ، گائے، بھینس، نرہو یا مادہ سب کی قربانی درست ہے۔ گائے، بھینس دوبرس سے کم ،بکری ایک برس سے کم کی نہ ہو، اور دنبہ چھ مہینے کابھی درست ہے جب کہ خوب فربہ ہو اور سال بھرکا معلوم ہوتاہو۔2 اور اونٹ ،گائے ،بھینس میں سات آدمی تک شریک ہوسکتے ہیں، مگر کسی کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہو۔
۳۔ جانور قربانی کا بے عیب ہو، لنگڑا، اندھا، کانا او ر بہت لاغر اور کوئی عضو تہائی سے زائد کٹا ہوا نہ ہو۔ خصی (یعنی بدھیا) کی اور جس کے سینگ نکلے ہی نہ ہوں، قربانی درست ہے۔ اور پوپلی جس کے دانت نہ رہے ہوں اور بوچی جس کے پیدایشی کان نہ ہوں، جائز نہیں۔ اور اگر بکری وغیرہ کا ایک تھن خشک ہوگیا یا بھینس وغیرہ کے دو تھن خشک ہوگئے ہیں اس کی قربانی بھی درست نہیں۔ دسویں تاریخ عید کی نماز کے بعد سے بارہویں کے غروب سے پہلے پہلے تین دن دو رات تک قربانی کا وقت رہتاہے، مگردسویں افضل ہے، پھر گیارہویں کا درجہ ہے، پھر بارہویں کااور رات کوذبح کرنامکروہ تنزیہی ہے اوراگر دس تاریخ کوکسی وجہ سے نمازنہ ہوئی ہو، مثلاً: بارش تھی، تو زوال کے وقت قربانی کا وقت شروع ہوتا ہے اور اگر نماز عید چند جگہ ہوتی ہو تو ایک جگہ ہونے کے بعد قربانی جائز ہے اور دیہات کے باشندوں کوجائز ہے کہ نمازِ عید1 سے پہلے ذبح کرلیں، بعد اس کے نماز کے لیے جائیں۔
۴۔ اگرقربانی شرکت میں کریں تومحض اندازے سے گوشت تقسیم کرنا جائز نہیں، تول کر پورا پورا بانٹیں کسی طرف ذرابھی کمی بیشی نہ ہو۔ ہاں جس حصہ میں کلے پائے بھی ہوں اس میں کمی چاہے جتنی ہو، جائز ہے۔ البتہ اگرمشترک ہی خرچ کرنایاکسی کو دینا چاہیں تو تقسیم کی حاجت نہیں۔
۵۔ بہتر ہے کہ کم ازکم ایک تہائی گوشت خیرات کردے اور ایک تہائی اَعِزَّا واَحباب کو دے دے۔
۶۔ قربانی کی کوئی چیز قصاب کو اُجرت میں دینا جائز نہیں۔
۷۔ قربانی پر جُھول ڈالنامستحب ہے اور پھر اس کی رسی جھول سب تَصدُّق کردینا افضل ہے۔
۸۔ قربانی کی کھال کواپنے کام میں لاناجائز ہے ۔مثلاً: مصلیٰ وغیرہ بنوا لے۔ لیکن کھال کا بیچنا اپنے خرچ میں لانے کے لیے درست نہیں ۔ہاں اگرقیمت خیرات کرنے کے لیے بیچے تو خیر، مگر اولیٰ یہ ہے کہ کھال ہی کسی کو دے دی جاوے۔