روزہ رکھنے کو منع قرار دیا ہے اور بعض نے اس کو جائز کہا ہے، اور اسی طرح مُحصَّب میں ٹھہر نے کو (حج کرنے والے کے واسطے) سنت کہا ہے، اور بعض نے کہا کہ یہ کوئی چیز نہیں۔اور اسی طرح بہت احکام ہیں۔ (پس اس اختلافِ علما کو جو دربارہ ذکر مولد شریف وغیرہ ہو رہا ہے ہوّ ا بنانا سخت نادانی ہے) اور اگر ذکر میلاد میں کوئی بات کھلم کھلا خلافِ شرع ہے تو پھر اس میں کسی کو اختلاف کی گنجایش ہی نہیں وہ سب کے نزدیک منع ہے۔ اور اس تحقیق سے گیارہویں کا حکم بدرجۂ اولیٰ معلوم ہوگیا جو ربیع الثانی میں خصوصاً (نیزدیگر مہینوں میں عموماً) کی جاتی ہے۔
یہ مختصر اور جامع تحریر بالکل کافی و شافی ہے۔ لیکن زیادت بصیرت کے واسطے ’’زوال السَّنَۃِ عن أعمال السُّنَّۃِ‘‘میں سے ہر دوماہ کے واسطے مضمون ذیل میں درج کیا جاتا ہے جو نہایت مفید ہے۔
اس ماہِ مبارک کو یہ فضیلت ہے کہ یہ زمانہ ہے تولد شریف حضور پُر نور سید بنی آدم فخرِ عالم ﷺ کا اور جس قدر زیادہ فضیلت کسی زمانہ کی ہوتی ہے اس زمانہ میں حدود شرعیہ سے تجاوز کرنا عنداللہ والرسول ﷺ اُسی قدر زیادہ ناپسندیدہ ہوتا ہے، اور حدود سے تجاوز کرنے کا معیار صرف علم ہے۔ اُن حدود کا بواسطہ ادلۂ اربعہ شرعیہ یعنی کتاب و سُنّت و اجماع و قیاسِ مجتہد مقبول الاجتہاد و عند اکابر الامۃ کے اور اُن ادلہ سے ثابت ہو چکا ہے کہ اس ماہِ مبارک میں جو بعض اعمال بعض عمال میں رائج و شائع ہوگئے ہیں مثل اہتمام و انعقاد مجلس مولد شریف بہ تخصیصاتِ معروضہ و قیود معلومہ خصوص انضمام دیگر منکرات، و مثل اعتیاد عید میلاد، یہ سب منجملہ اَفراد تجاوز عن الحدودالشرعیہ کے ہیں۔ پس لامحالہ غیر مرضی عنداللہ والرسول ﷺ ہوئے اور بوجہ فضیلت اس زمانہ کے غیر مرضی ہونے میں بھی اوکد ہوئے۔ پس لابُدَّ واجب الاحتیاط ہوئے۔ البتہ حدود کے اندررہ کر ذکر مبارک رسول مقبول ﷺ منجملہ اعظم البرکات افضل القربات ہے کہ کسی مؤمن کو خصوص ساعی فی اتباع السنۃ کو اس میں کلام نہیں ہو سکتا:
اگر ان مقدمات ِمذکورہ کے مفصّل دلائل اور اس ذکر مبارک کے مشروع طریقہ کے اور خود معتد بہ حصّہ سِیرَ و سوانح نبویہ ﷺ کے معلوم کرنے کا شوق ہو تو رسائل ذیل ضرور ملاحظہ فرمائیے کہ حق بالکل واضح اور التباس بالکل زائل ہوجائے ۔
نام رسائل: ۱۔ طریقۂ مولدشریف۔ ۲۔النور۔ ۳۔الظہور۔ ۴۔ السرور۔ ۵۔نشرالطیب۔ ۶۔الحبور۔ ۷۔ الشذ ور ۔
اور بلا تحقیق کسی عمل پر یا کسی عمل کے متعلق بہ دلیل کسی حکم لگانے والے پر کوئی حکم لگانا مضرِ آخرت ہے۔
ربیع الثانی