حالاں کہ بعض آدمی راستے میں مل جاتے ہیں اس لیے اس سے نہایت اہتمام کے ساتھ بچنا لازم ہے اور اگر کوئی نفل پڑھنا چاہے تو نماز عید کے بعد اپنے گھر میں تنہا ہی چار نفل چاشت کی نیت سے پڑھ لے تو ثواب ہے۔
تنبیہ دوم :عیدین کی نماز عید گاہ میں پڑھنا مسنون ہے۔اس واسطے اگر امامِ عیدگاہ دین دار ہو تو عیدگاہ میںجانا چاہیے، البتہ اگر بیماری ہے یا بڑھاپے کے سبب مسجد میں شریک ہوجاوے تومضایقہ نہیں اور مسجدوں میں عیدین کی نماز معذور لوگوں ہی کے واسطے جاری ہوئی ہے ۔لیکن جب امامِ عیدگاہ ایسا ہو جس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہو تو پھر دین دار امام کے پیچھے مسجد میں پڑھ لیں۔ غرض بلا وجہ مسجدوں میں نماز عید نہ پڑھی جاوے۔
تنبیہ سوم : عید کی نمازکے بعد تو دعا مانگنے کی گنجایش ہے، لیکن خطبہ کے بعد دعا مانگنا محض بے دلیل ہے ۔اس واسطے خطبہ کے بعد دعا نہ مانگی جاوے۔
تنبیہ چہارم:نماز عیدین کے لیے اذا ن اور اقامت نہیں ہے اور یہ جو دستور ہے کہ الصلاۃ الصلاۃ! پکارتے ہیں، یہ بدعت ہے اس کو ترک کرنا چاہیے۔
تنبیہ پنجم: عیدالفطر کی نماز میں تاخیر بہتر ہے اور عیدالاضحی میں تعجیل ۔اور معیار اس کا یہ ہے کہ شروع وقت سے اخیرتک یعنی اشراق سے نصف النہارتک کاحساب لگایا جاوے جتنا وقت ہوتا ہواس کاآدھاکریں، آدھے سے پیشتر پڑھنا تعجیل ہے اور آدھے کے بعد پڑھنا تاخیر۔ اس حساب سے بقر عید کی نماز چھوٹے دنوں میں طلوع آفتاب کے بعد اڑھائی گھنٹہ کے اندر اندر ہونا چاہیے۔ اور بڑے دنوں میں اس سے کچھ دیر بعد اور عید الفطر کا مستحب وقت چھوٹے دنوں میں طلوع سے اڑھائی گھنٹہ بعد شروع ہوجاتا ہے اور بڑے دنوں میں ساڑھے تین گھنٹے بعد۔