۴۔ عید کی صبح صادق کے وقت یہ صدقہ واجب ہوتا ہے۔ تو اگر کوئی شخص فجر کا وقت آنے سے پہلے فوت ہوگیا ہو اس پر صدقۂ فطر واجب نہیں،3 اس کے مال میں سے نہ دیا جائے۔ اسی طرح جو بچہ صبح صادق کے بعد پیدا ہوا ہو اس کی طرف سے صدقۂ فطر واجب نہیں ہے۔ 4یہی حکم ہے اس شخص کا جو صبح صادق سے پہلے فقیر ہوگیا ہے کہ اس شخص پر صدقۂ فطر واجب نہیں۔5
۵۔ مستحب یہ ہے کہ عید کے دن نماز سے پہلے یہ صدقہ دیا جائے اور اگر عید کے دن نہ دیا جائے تو معاف نہیں ہوا۔ اب کسی دن اس کی قضا کرنی لازمی ہے۔ اور اگر اس کو رمضان المبارک میں ہی ادا کردیا گیا تب بھی ادا ہوگیا۔
۶۔ جس شخص نے کسی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے نہیں رکھے اس پر بھی یہ صدقہ واجب ہے۔ 1
صدقۂ واجب کی مقدار:
۷۔ صدقۂ فطر میں اگر گیہوں یا گیہوں کا آٹا، ستو دیا جائے تو نصف صاع یعنی پونے دوسیر بلکہ احتیاطاً دوسیر دے دینا چاہیے۔ اور اگر گیہوں اور جو کے علاوہ کوئی اور غلہ دینا چاہے، جیسے: چنا، چاول، تو اتنا دیوے کہ اس کی قیمت نصف صاع گندم یا ایک صاع جو کے برابر ہوجائے۔ اور اگر غلہ کی بجائے اس کی قیمت دی جائے تو سب سے افضل ہے۔ 2
۸۔ ایک آدمی کا صدقۂ فطر کئی فقیروں کو اور کئی آدمیوں کا صدقۂ فطر ایک فقیر کو دینا جائز ہے۔ 3
صدقہ کے مستحق:
۹۔ صدقۂ فطر کے مستحق بھی وہی لوگ ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق ہیں، یعنی ایسے غریب لوگ جن کے پاس اتنا مال نہیں ہے جس پر صدقۂ فطر واجب ہوتا ہے۔
۱۰۔ صدقہ دینے میں اپنے غریب رشتہ داروں اور دینی علم کے سیکھنے سکھانے والوں کو مقدم رکھنا افضل ہے۔4
۱۱۔ جن لوگوں سے یہ پیدا ہوا ہے، جیسے: ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی، اور اس طرح جو اس کی اولاد ہے، جیسے: بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی، ان کو صدقۂ فطر نہیں دے سکتا۔ (ایسے ہی بیوی اپنے شوہر کو اور شوہر اپنی بیوی کو بھی صدقۂ فطر نہیں دے سکتا)۔5 ان رشتہ داروں کے علاوہ، جیسے: بھائی بہن، بھتیجا بھتیجی، بھانجا بھانجی، چچاچچی، پھوپھا پھوپھی، خالو خالہ، ماموں مامی، ساس سسر، سالہ، بہنوئی، سوتیلی ماں، سوتیلاباپ سب کو صدقۂ فطر دینا درست ہے۔ 6