ہے، اگر سحری آخر میں اس کے مستحب وقت پر کھائی جائے اور صبح صادق ہونے پر اذان کے بعد جلدی جماعت فجر کرنے کا انتظام ہوجایا کرے تو اس طرح اس خرابی کی کافی حد تک اصلاح ہوسکتی ہے۔
فائدہ: فجر کی جماعت میں اِسفار (خوب روشنی) کر کے اس کو ایسے وقت میں ادا کرنا اَحناف ؒ کے نزدیک مستحب ہے کہ طلوع شمس سے قبل دو مرتبہ مستحب طریقہ پر نماز ادا ہوسکے مگر اس سے مقصود تکثیر جماعت ہے اور عام طور پر صبح کا وقت چوںکہ غلبۂ نوم و غفلت کا ہوتا ہے اس لیے عام لوگوں کو جماعت میں شامل کرنے کے لیے اِسفار اور تاخیر کرنا مستحب ہے، اور یہی وجہ ہے کہ جماعتِ فجر میں پہلی رکعت کے اندر امام کے لیے طویل قرا ء ت کر کے اس کو دوسری رکعت پر طویل کرنا بالاتفاق مستحب ہے تاکہ لوگ نیند غفلت سے بیداری اور ہوشیاری کے بعد جماعت میں شامل ہو سکیں، تو معلوم ہوا کہ اس میں ضُعَفا کے لیے رحمت اور ان پر خاص نظرِ عنایت ہے کہ ان کے لیے حق تعالیٰ نے ایسے مواقع مہیا فرمادیے کہ اگر تھوڑی سی ہمت اور ادنیٰ توجہ کی جائے تو جماعت کا ملنا کچھ مشکل نہیں۔
سُبْحَانَ اللّٰہِ جماعت کی اہمیت کو کیسے عجیب طریقہ اور کس نرالے طرز سے ظاہر فرمایا گیا ہے کہ اول تو وقتِ صبح ہو جانے کے بعد ہی حدِاِسفار تک تاخیر کرنے کا حکم دے دیا۔ اب بھی اگر نوم و غفلت رفع نہیں ہوئی تو پھر امام کے لیے تطویل رکعتِ اُولیٰ کو سنت قرار دے دیا تا کہ غفلت میں پڑے ہوئے انسان بھی جماعت کے اندر شامل ہوسکیں اور ان کو جماعت کے ثوابِ عظیم میں شریک ہونے کا موقع میسر آجائے۔
بہر حال فجر کی جماعت میں اسفار سے مقصود تکثیرِ جماعت ہے تو سحری کے بعد اگر سب نمازی جماعت میں شامل ہوجانے کا اہتمام کرلیں تو غلس میں جماعت کرنے سے بھی یہ مقصود تکثیر جماعت حاصل ہوجائے گا۔ پس قبل اسفار جماعت کرنے سے جس مخطور کا اندیشہ ہوتا ہے، اس صورت میں وہ مخطور نہیں پایا جاتا۔ ’’فیض الباری‘‘ میں سرخسی کے حوالہ سے فجر کی نماز غلس میں پڑھنے کو اولیٰ قرار دیا ہے، جس وقت لوگ جمع ہوجائیں۔ اور احادیث غلس کو رمضان پر محمول کیا ہے۔ 1
افطاری کا بیان : اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ہمارے لیے اس عبادت صوم کی ایک خاص حد مقرر فرما کر اس حد کے آنے پر اس کو ختم کرنے اور افطار کرنے کا حکم فرمادیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس وقت اس جگہ سے رات