۴۔ عورت اگر عدت میں ہو اس کاحج کاسفر کرنا بھی جائز نہیں، خواہ عدتِ وفات ہو، یاعدتِ طلاق، اور طلاق رجعی ہو، یا بائن، یامُغلَّط۔ حتیٰ کہ اگرحج کے راستہ میں عدت واجب ہوجاوے یعنی تین منزل سفرکرنے کے بعد راستہ میں خاوندنے طلاق بائن دے دی ہو، یااس کاانتقال ہوگیا ہو تواسی جگہ عدت پوری کرے۔1البتہ اگرجہاز یاجنگل وغیرہ میں ایسااتفاق پیش آجاوے توساحل تک یاقریبی آبادی تک پہنچنا جائز ہے۔
اور یہ تفصیل جب ہے کہ مقامِ طلاق یا وفات سے مکہ معظمہ تین منزل ہو، اوراگر تین منزل سے کم ہو تو پھر حج کو چلی جائے۔ اور اگرخاوند نے طلاقِ رجعی دی ہے اور خاوند ساتھ جارہا ہے تو سفرِحج موقوف کرنے کی ضرورت نہیں۔
۵۔ جس نے نابالغی میں حج کیا ہو اور پھر اس کو گنجایش سفرِحج کی ہوجاوے توپھر اس پرحج فرض ہوگا، وہ پہلاحج کافی نہیں۔
۶۔ اگربلوغ کے بعد ناداری کی حالت میں حج کیا ہو اور پھرمال دار ہوجائے تو وہ پہلا حج کافی ہے ۔
۷۔ حج بدل کے مسائل بہت نازک ہیں، جب کوئی حج بدل کے لیے جاوے یا کسی کو بھیجے تو کسی محقق عالم سے اس کے مسائل تحقیق کرلے۔1
۸۔ بعض لوگ تبرّ کات لانے کو ایسا لازم سمجھتے ہیں کہ اگر اس کے زیادہ خریدنے کے لائق خرچ نہ ہو حج ہی کو نہیں جاتے یا اسی طرح واپس آکر دعوت دینے کو بھی، سو ان امور کی وجہ سے حج کو ملتوی کرنا حرام ہے۔
۹۔ عوام الناس میں جمعہ کے روزکے حج کالقب حجِ اکبر مشہور ہے، سویہ شریعت میں لفظی تحریف کرناہے۔کیوں کہ اطلاقاتِ شرعیہ میں حجِ اکبر مطلق حج کوکہتے ہیں، عمرہ سے ممتاز کرنے کے لیے، جس کو حجِ اصغر کہتے ہیں۔ اور قرآن مجید میں جوشروع سورۂ براء ت میں{یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ} 2 آیا ہے وہاں یہی تفسیرہے۔ اب اس اصطلاحِ مُختَرع سے احتمال ہے تفسیر میں غلطی کا، اور عوام اس کے اہتمام میں بھی بہت غلو کرتے ہیں، یہ شریعت میں تحریفِ معنوی یعنی بدعت ہے۔ البتہ حج یومِ جمعہ کی فضیلت کاانکار نہیں۔ ایک بڑی فضیلت یہی ہے کہ حضورﷺ کا حج جمعہ کے روز واقع ہواتھا، مگرعوام کی زیادات یہ محض بے اصل ہیں۔
ایک نہایت ضروری مسئلہ:عام طور پریوں سمجھاجاتاہے کہ جب نقدروپیہ مصارفِ حج کے لیے کافی موجود ہو تب حج فرض ہوتاہے، حالاں کہ جس کے پاس حاجت سے زائد اتنی زمین وغیرہ ہوجس کی قیمت مصارفِ حج کے واسطے کافی ہواس پربھی حج فرض ہے۔ لہٰذا ’’عالمگیری‘‘ سے وہ صورتیں مفصل لکھی جاتی ہیں جن میں بدوں نقد کے بھی حج فرض ہوجاتاہے :