عربی خوانوں نے اس بدعت کی تائیدمیں ان کو پیش کیاہے یاوہ پیش کرسکتے ہیں اور اس طرح موجدینِ عید میلاد کے ہاتھوں میں انھوں نے دلائل دینے کی کوشش کی ہے۔
اول: وہ آیت { قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط}1 سے اس طرح استدلال کرسکتے ہیں کہ اس آیت سے فرحت کا حکم ثابت ہوا، اور یہ بھی اظہارِ فرحت کے لیے ہے لہٰذا جائز ہے۔ جواب ظاہر ہے کہ اس آیت سے فقط فرحت کا حکم ثابت ہوتا ہے اور گفتگو اس خاص متعارف طریقۂ عید میلادمیں ہے، اس سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔
اگراس کلیہ میں اس کا داخل کرنا صحیح ہو توکتبِ فقہ میں جن بدعات کو روکا گیاہے وہ بھی کسی ایسے ہی کلیہ میں داخل ہوسکتی ہیں، توپھر کیا ان کو بھی جائز کہاجائے گا؟ حالاں کہ کتبِ فقہ میں جو فریقین کے نزدیک مسلّم ہیں ان بدعات کی ممانعت صراحۃً مذکورہے۔ ہم جس بات کو منع کرتے ہیں وہ ہیئتِ خاصہ ہے، اور جوفرحت آیت {فَلْیَفْرَحُوْاط} سے ثابت ہوتی ہے وہ فرحتِ مطلقہ ہے، پس اہلِ بدعت یہ سمجھتے ہیں کہ ہم فرحت کو منع کرتے ہیں حالاں کہ یہ صحیح نہیں ہے بلکہ اگر غور سے کام لیاجائے توہم اس فرحت پر زیادہ عمل کرتے ہیں، اس لیے کہ موجدین توسال بھر میں ایک ہی مرتبہ خوشی کااظہارکرتے ہیں اور گویا ان کے نزدیک اظہارِ خوشی کایہی طریقہ متعین ہے اور اس کے بغیر خوشی کااظہار ہوتاہی نہیں، اس لیے جوشخص ان کے مقررہ طریقہ کے موافق خوشی کااظہار نہیں کرتااس کوسمجھتے ہیں کہ اس نے خوشی کااظہار کیا ہی نہیں اورہم ہروقت اس فرحت پرعامل ہیں جس کاحکم اس آیت میں فرمایاگیا ہے، اس لیے کہ اہلِ حق ایمان کی خوشی سے ہروقت دلشاد اور فرحاں رہتے ہیں اور اس کا اس آیت میں امر فرمایا گیا ہے۔
دوسرا استدلال موجدین کا اس حدیث سے ہوسکتاہے کہ جب ابولہب نے حضور ﷺ کی ولادت کی خبر سنی تو اس نے خوشی میں آکر ایک باندی آزادکردی تھی اور اس پر ابولہب کی جہنم کی سزا میں تخفیف ہوگئی۔ جواب اس کابھی ظاہر ہے کہ ہم نفسِ فرحت کے منکر نہیں گفتگو تو اس نئی ایجاد شدہ خاص ہیئت میں ہے۔ اس واقعہ میں صرف فرحت کاثبوت ہوتاہے۔ اس ہیئتِ جدیدہ کا نام و نشان نہیں ہے۔