موافق اس کا اظہار کرناچاہیے۔
مقامِ غور ہے کہ آں حضرت ﷺ کے ساتھ ایسابرتائوکرنا جودنیوی اُمرا اور حکام کے ساتھ کیاجاتاہے جن کو آں حضرت ﷺ کے ارفع اور اعلیٰ شان کے ساتھ وہ نسبت بھی نہیں جو زمین کو آسمان کے ساتھ ہے۔ بارگاہِ نبوت میں بے ادبی اور گستاخی نہیں ہے؟
اب دیکھنا چاہیے کہ ولادتِ نبویﷺ پراظہارِ خوشی کا جو طریقہ آج کل رواج پاگیا ہے جس کو’’عیدمیلاد‘‘ کہا جاتاہے کیایہ طریقہ اسی شرعی طریقہ کے موافق ہے جس کی تعلیم ہم کو دی گئی ہے؟
قرآن کریم سے آں حضرت ﷺ کی ولادتِ مبارکہ پر فرحت و سُرور کا ثبوت:
قرآن کریم میں ہے:
{قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo}1
(اے محمدﷺ!) آپ فرماد یجیے کہ اللہ کے فضل اور رحمت ہی کے ساتھ بس صرف چاہیے کہ خوش ہوں (اس لیے) کہ وہ بہترہے اس شے سے کہ جس کویہ لوگ جمع کرتے ہیں۔
اس آیت کے سیاق پرنظر کرکے توفضل ورحمت سے مراد قرآن مجید ہے لیکن اگرایسے معنی عام مراد لیے جائیں کہ قرآن مجید بھی اس کا ایک فرد رہے تو یہ زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ معنی ہے کہ فضل و رحمت سے حضور کا قدوم مبارک اور آپ کی دنیا میں تشریف آوری کو مراد لیاجائے۔ اس تفسیر کے موافق جتنی نعمتیں اور رحمتیں ہیں خواہ وہ دنیوی ہوں یا دینی ہوں اور اس میں قرآن مجید بھی ہے، سب اس میں داخل ہوجائیں گی، اس لیے کہ حضور ﷺکا وجود باجود اصل ہے تمام دینی اور دنیوی نعمتوں کی، اورسرچشمہ ہے تمام رحمتوں اور فضل کا۔ اس طرح یہ تفسیرتمام تفسیروں کی جامع تفسیر ہوجائے گی۔
اس تفسیر کی بنا پر حاصل آیتِ مبارکہ کا یہ ہوگا کہ ہم کو حق تعالیٰ ارشاد فرمارہے ہیں کہ حضورﷺ کے وجود باجود پر خوش ہونا چاہیے اس لیے کہ حضورﷺ ہمارے لیے تمام نعمتوں کے واسطہ ہیں، خواہ وہ دنیوی نعمتیں ہوں یا دینی، جن میں سب سے بڑی دولت ایمان ہے جس کا حضور اکرم ﷺ کی بدولت ہم کوپہنچنا تو بالکل ظاہر ہے۔ غرضے کہ اصل الاصول تمام مواد فضل ورحمت کی حضورﷺ کی ذات بابرکات ہوئی۔
اس لیے اس ذات بابر کات کے وجود پرجس قدر بھی خوشی اور فرح ہوکم ہے۔ بہرحال اس آیت سے عموماً یاخصوصاً