تیسرا استدلال اس آیت سے ہوسکتاہے جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’اے اللہ! ہم پرآسمان سے خِوان نازل فرماکہ وہ ہمارے لیے عیدبن جائے ۔ ہمارے پہلوں کے لیے اورہمارے پچھلوں کے لیے اور ایک نشانی قدرت کی آپ کی طرف سے‘‘۔ اس آیت سے معلوم ہواکہ عطائے نعمت کی تاریخ کو عید بنانا جائز ہے اور پہلی امتوں کی شریعت بھی ہم پر رحمت ہے۔ اگر اس پرہماری شریعت میں رد و انکار نہ کیا گیا ہو، اور حضور ﷺ کی ولادت ظاہر ہے کہ نعمتِ عظیمہ ہے، پس آپ کی تاریخِ ولادت کو عید بنانا جائز ہوگا۔
جواب اس کایہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ اس امرپررد و انکار اسی جگہ ہوجہاں وہ منقول ہے۔ دیکھیے قرآن مجید میں جس جگہ سجدۂ تعظیمی منقول ہے اس جگہ اس پررد و انکار نہیں فرمایا گیابلکہ اس کی حرمت کے دلائل دوسرے مقام پرذکرکیے گئے ہیں۔ اسی طرح جوآیات واحادیث ہم نے عید بنانے کی ممانعت میں اپنے دلائل میں بیان کی ہیں وہ سب اس پررد و انکار کے دلائل ہیں۔ یہ جواب تواس صورت میں ہے جب کہ آیت کے یہ معنی صحیح تسلیم کرلیے جائیں جو بیان کیے گئے ہیں ورنہ اس آیت سے یہ مطلب ثابت ہی نہیں ہوتاکہ نزولِ مائدہ کی تاریخ کو عید بنایا جائے گا۔ اس لیے کہ تکون کی ضمیر المائدۃ کی طرف راجع ہے، نہ یوم کی طرف، اس سے یومِ نزولِ مائدہ مرادلینا مجاز ہوگا، اورمعنیٔ حقیقی کو بلاوجہ ترک کرنا درست نہیں۔ اس لیے صحیح معنی یہ ہیں: تَکُوْنُ الْمَائِدَۃُ سُرُوْرًا لَنَا۔ یعنی وہ مائدہ ہمارے لیے سرور کا باعث ہوجائے، اور یہ معنی درست نہیں ہیں کہ وہ دن ہمارے لیے عیداور باعثِ سروربن جائے۔ اور اس جگہ عید کے متعارف معنی مراد نہیں ہیں بلکہ عید سے مطلق سرور مرادہے، مطلب یہ ہے کہ وہ مائدہ ہمارے پچھلوں کے لیے سرمایۂ سروربن جائے کہ اس نعمت پرہمیشہ شاداں و فرحاں اور شاکررہیں۔
لطیفہ:شائقینِ متعہ کے لیے جہاں م،ت،ع آتاہے اس سے وہ متعہ کا ثبوت مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے نزدیک شیخ سعدی کے شعر ع
تمتع زہر گوشہ یافتم
سے بھی شاید متعہ نکلتا ہے اور آیت{ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ} 1 کے بھی یہی معنی ہوں گے کہ اے رب ہمارے! بعض نے بعض سے متعہ کیاہے۔ ایسے ہی شائقینِ عید میلاد نے اس آیت میں ع، ی، د دیکھ کر اس سے عید میلاد کا ثبوت مہیاکرنے کی کوشش کی ہے۔