ربیع الاوّل اور ربیع الثانی کے افعالِ مروّجہ کا حکم
اکثر لوگ ربیع الاوّل کے مبارک مہینے میں ذکر میلاد شریف کی عادت رکھتے ہیں اور بارہویں تاریخ کو خاص طور پر اہتمام کیا جاتا ہے۔ بعض تو اس روز وفات نبوی ﷺ کی وجہ سے رنج و غم کرتے ہیں (حالاںکہ اس روز وفات ہونے کی روایت بھی کسی طرح صحیح نہیں)۔ اور بعض ولادتِ نبویہ ﷺ کے سبب اس کویومِ عید قرار دیتے ہیں، مگر شریعت سے نہ تو ذکر میلاد ہیئت مروّجہ پر جائز، خواہ وہ اس ماہ میں ہو یا کسی دوسرے ماہ میں اور نہ ربیع الاوّل کے متعلق کوئی خاص عمل منقول نہ اُس روز کو ماتم بنانا جائز نہ عید منانا، یہ سب امور مُحدَثات ہیں اور قابلِ ترک ۔اور اسی طرح ربیع الثانی میں جو پیرانِ پیر کی گیارہویں کا رواج ہے یہ بھی سراسر بے اصل ہے اور اکثر عوام کا جو عقیدہ ہے اس کے بارے میں وہ کھلم کُھلا شرک ہے۔ اب ہم ان سب رسومِ مروّجہ کے بارے میں قولِ فیصل ’’افادۃ العوام ترجمہ خطبات الاحکام‘‘ سے نقل کرتے ہیں۔
ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: پڑھو مغرب سے پہلے دو رکعت۔ تین بار ارشاد فرمایا اور تیسری مرتبہ جو چاہے کا لفظ بھی فرمایا بوجہ ناپسند فرمانے اس بات کے کہ لوگ اس کو سنت سمجھ لیں۔1
اس حدیث شریف سے معلوم ہوگیا کہ جو چیز شرعاً ضروری نہ ہو اُس کو ضروری قراردے لینا بھی شریعت کے خلاف اور ناجائز ہے اور اس پر محققین کا اتفاق ہے اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ اگر کسی غیر ضروری چیز کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا گیا جس سے ضروری سمجھنے کا شبہ ہوتا ہو تو یہ بھی اُسی کے مشابہ ہے، لہٰذا ایسا برتاؤ بھی ممنوع ہے۔
اور اس میں اکثر لوگ ذکر میلاد کی عادت رکھتے ہیں، اس کا حکم بھی اس سے معلوم ہوگیا۔ وہ یہ کہ اگر اس میں کوئی قید اور تخصیص (دن اور ماہ وغیرہ کی) نہ ہو تو وہ مباح کے درجہ میں ہے اور اگر اس میں کچھ قیود اور تخصیصات بھی ملی ہوئی ہوں تو دو حالتیں ہیں: ایک یہ کہ اُن قیود کو لازم سمجھتا ہو تب تو اس کے بدعت ہونے میں کوئی کلام ہی نہیں۔ اور اگر اُن قیود کو ضروری اور ثواب نہ سمجھتا ہو (بلکہ مباح سمجھ کر کسی مصلحت سے کرتا ہو) تو بدعت کے مشابہ ضرور ہے، لہٰذا اپنے اپنے درجہ کے موافق دونوں کو منع کیا جائے گا۔
پس جس عالم نے ذکر میلاد کرنے والوں کے ساتھ یہ گمان رکھا کہ وہ اس کو ضروری اور قربت خیال کرتے ہیں اُس نے اس کو منع کیا، اور جس عالم نے اس اعتقادِ فاسد کی طرف دھیان نہیں کیا وہ جائز کہتا ہے، (اس سے اختلافِ علماکی اصل وجہ معلوم ہوگئی)۔ اور جو شخص عوام کی حالت کو بغور دیکھے کہ وہ ان قیودیا اس فعل غیر ضروری کے تاک پر ایسی بری طرح ملامت اور اعتراض کرتے ہیں کہ ایسی ملامت نماز روزہ ترک کرنے پر بھی نہیں کرتے وہ شخص منع کرنے والوں کے فتوے کو بلاشبہ ترجیح دے گا، اور یہ اختلاف علما کا ایسا ہے جیسا کہ سلف میں ہو چکا ہے کہ بعض نے ان میں سے تنہا جمعہ کا